اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احساں

تحریر : سجل راجہ اسلام آباد

25 دسمبر 1876 کو پونجا جناح کے گھرانے میں پیدا ہونے والے بچے کا نام محمد علی جناح رکھا گیا۔ بڑے ہونے پہ محمد علی، حضرت علیؓ کے مثل بہادر اور اپنے سچے موقف پہ ڈٹ جانے والے بنے اور پھر قوم نے ان کے بے حساب احسانات کی بدولت انہیں ” قاٸداعظم “ کے لقب سے نوازا۔ قوم کا بچہ نوجوان ہو یا بوڑھا آپ ؒ کو قاٸداعظم سے ہی یاد کرتا ہے اور کیوں نہ کرے کہ آپ نے مسلمانوں کی فلاح کے لیے مسلمانوں کے مستقبل کے لیے اپنی جان کی اپنی صحت کی بھی پرواہ نہ کی۔ قاٸد نے مسلمانوں کے کل کے لیے اپنا آج قربان کر دیا۔
قاٸد کی زندگی میں بہت سے مشکل حالات آۓ لیکن کبھی گھبراۓ نہیں۔ سیاسی آغاز کیا کانگریس میں شمولیت اختیار کی کانگریس میں اتنے مضبوط قدم تھے کہ ” صلح کے شہزادے“ کے لقب سے مشہور ہوۓ لیکن جب دیکھا کہ کانگریس تو مسلمانوں کے حق میں بات ہی نہیں کرتی ہندوؤں کی ہی بات کیے جاتی ہے تو مسلمانوں کی حمایت کرتے ہوئے آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گے۔ یہ قاٸد کا مسلمانوں پہ احسان تھا کہ ان کی خاطر ہر طرح کی پیشکش ٹھکرا دی۔ کانگریس سے علحیدگی کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر کے قاٸد نے مسلمانوں کے حق میں پرزور آواز بلند کی ۔ 1930 میں مسلمانوں کے لیے علحیدہ وطن کے اقبال کے خواب کی تعمیر کی پہلی اینٹ 1940 میں رکھی گی، 23 مارچ 1940 میں قاٸد کی قیادت میں ” قرارداد پاکستان“ کی منظوری بنیاد کا پتھر ثابت ہوٸی جو ایک بڑا احسان تھا قاٸد کا۔ اقبالؒ کو معلوم تھا کہ مسلمانوں کی قیادت قاٸد اعظم کے علاوہ کوٸی نہیں کر سکتا پس انہیں بہت سے خطوط کے ذریعے وطن واپس آ کر مسلمانوں کی قیادت کرنے کی ترغیب دیتے رہے چنانچہ اتنے دعوت ناموں کے بعد جب قاٸد نے آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی تو جماعت بہت تیزی سے ترقی کرنے لگی پس جب دوسری جنگ عظیم کے بعد انتخابات ہوۓ تو قاٸد اعظم کی سیاسی بصیرت کی بنا پر متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے مختص کی گی نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ مسلم لیگ کی کامیابی پر کانگریس سیخ پا ہو گی۔ مسلم لیگ اور کانگریس کے مابین ”اختیارات کی جنگ “ چھڑ گی۔ اس وقت قاٸد اعظم کی بصیرت نے بہت بڑا فیصلہ کر لیا حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوۓ قاٸد نے علحیدہ وطن کا مطالبہ کر دیا۔ 14 اگست 1947 کو پاکستان قاٸم ہوا ۔ اس احسانِ عظیم سے مسلمانوں کے دل قاٸد کے نام پہ دھڑکنے لگے۔ غیر مسلم ممالک پاکستان کے قیام پہ شدید نالاں تھے خاص طور پہ بھارت وہ ہمیشہ سے پاکستان کے قیام کے مخالف تھا۔ پاکستان مخالف قوتوں کی طرف سے ہزار ہا رکاوٹيں کھڑی کی گٸیں لیکن قاٸد اعظم کے اسقلال کے آگے کوٸی قوت زیادہ دیر کو کھڑی نہ رہ پاٸی۔ کم لوگ تاریخ بدلتے ہیں اور اس سے بھی کم لوگ نقشے بدلتے ہیں قاٸد کا احسان ہے کہ ان کا شمار نقشے بدلنے والوں میں سے ہے۔ قاٸد کے پاس وقت کم تھا اور کام زیادہ تھا سو انہوں نے اپنی جان اور بیماری کی پرواہ نہ کی اور پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر اپنی خدمات شروع کیں گورنر جنرل کے طور پہ ان کی پالیسیاں بے حد متاثر کن تھیں۔ مہاجرین کی آبادکاری اور بہبود کے لیے دن رات کام کیا۔ تمام صوبوں کو یکساں وسائل دینے کی کوشش کی۔ اپنی مدبرانہ کوششوں سے محض ایک سال میں پاکستانيوں کے مساٸل کو حل کرنے کے لیے بہت محنت کی۔ اس دوران قاٸد کی بیماری نے شدت اختیار کر لی لیکن انہوں نے اپنی بہن فاطمہ جناح کو بھی بیماری سے متعلق نہیں بتایا مبادا کہیں انہیں بیماری کا بہانہ بنا کر کام سے روک نہ دیا جاۓ اور پاکستان کے تعمیر کا خواب ادھورا رہ جاۓ۔ قاٸد نے اپی بیماری کے بارے میں ڈاکٹر کو بھی نہیں بتایا ڈاکٹر نے خود تشخيص کر لی بیماری اور قاٸد کو آرام کا مشورہ دیا لیکن قاٸد نے آرام کی زندگی ترک کر کے آخری لمحے تک قوم کی خدمت میں لگے رہے۔ قاٸد اپنی بیماری سے سالوں سے لڑ رہے تھے خود فرماتے ہیں کہ میں 12 سال سے جانتا تھا اپنی بیماری کے بارے میں ظاہر اس لیے نہیں کیا کہ ہندوستانی میری موت کا انتظار نہ کرنے لگیں۔ قاٸد نے ابنی بیماری کو چھپا کر بھی ہم پہ احسان کیا ورنہ بیماری کے ظاہر ہونے پہ ہندو کبھی پاکستان آزاد نہ ہونے دیتے اس کا ثبوت بھی کتابوں میں موجود ہے،
برصغیر کی جدوجہد آزادی کے موضوع پر لکھی گئی مشہور کتاب ’فریڈم ایٹ مڈنائٹ‘ کے مصنّفین لیری کولنز اور ڈومینک لاپیئر نے لکھا ہے کہ: ’اگر اپریل 1947 میں ماؤنٹ بیٹن، جواہر لال نہرو یا مہاتما گاندھی میں سے کسی کو بھی اس غیر معمولی راز کا علم ہو جاتا جو بمبئی کے ایک مشہور طبیب ڈاکٹر جے اے ایل پٹیل کے دفاتر کی تجوری میں انتہائی حفاظت سے رکھا ہوا تھا، تو شاید ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا اور آج ایشیا کی تاریخ کا دھارا کسی اور رخ پر بہہ رہا ہوتا۔ یہ وہ راز تھا جس سے برطانوی سیکرٹ سروس بھی آشنا نہ تھی۔ یہ راز جناح کے پھیپھڑوں کی ایک ایکسرے فلم تھی، جس میں بانی پاکستان کے پھیپھڑوں پر ٹیبل ٹینس کی گیند کے برابر دو بڑے بڑے دھبے صاف نظر آ رہے تھے۔ ہر دھبے کے گرد ایک بالا سا تھا جس سے یہ بالکل واضح ہو جاتا تھا کہ تپ دق کا مرض جناح کے پھیپھڑوں پر کس قدر جارحانہ انداز میں حملہ آور ہوچکا ہے۔‘
انگریز بھی ہندوؤں کی طرح بعد میں قاٸد کی بیماری کا معلوم نہ ہونے پہ افسوس کرتے رہے
” ماؤنٹ بیٹن نے خاصے طویل عرصے بعد لیری کولنز اور ڈومینک لاپیئر کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ساری طاقت جناح کے ہاتھ میں تھی۔ ’اگر کسی نے مجھے بتایا ہوتا کہ وہ بہت کم عرصے میں ہی فوت ہوجائیں گے تو میں ہندوستان کو تقسیم نہ ہونے دیتا۔ یہ واحد صورت تھی کہ ہندوستان متحدہ صورت میں برقرار رہتا۔ راستے کا پتھر صرف مسٹر جناح تھے، دوسرے رہنما اس قدر بے لوچ نہیں تھے اور مجھے یقین ہے کہ کانگریس ان لوگوں کے ساتھ کسی مفاہمت پر پہنچ جاتی اور پاکستان تاقیامت وجود میں نہ آتا۔‘“
لیکن قاٸد اعظم عظیم مدبر تھے انہوں نے اپنی زندگی مسلمانوں کے لیے وقف کر دی تھی اس لیے آرام نہیں کام کو ترجیح دی۔ ایک بار ان کے ملازم نے کہا،” جناب ہر وقت جاگنے سے آپ کی صحت پر برا اثر پڑے گا۔ آپ نے بالکل آرام کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔“ قاٸد نے جواب دیا،” جب حکمران سوتا ہے تو جراٸم پیشہ لوگ جاگ اٹھتے ہیں پس اسی لیے ضروری ہے کہ قوم سو جاۓ تو ان کی نگہبانی کے لیے جاگتا رہے۔“
قاٸد نے ہوش میں جاگتے ہوۓ قوم کی حفاظت کر کے دکھایا۔

Scroll to Top