Interview Sheeba Hanif, Writer and Poet

Interview Sheeba Hanif

ملیے ادبی حلقوں سے “آب دار “اور” سپیکٹرم “جیسے خطابات پانے والی دور جدید کی مشہور و معروف مصنفہ محترمہ شیباحنیف مرزا صاحبہ سے

Interview Sheeba Hanif
Interview Sheeba Hanif

 پتا ہے! اس دنیا میں جب میں بچپن میں تھی تو سچی قدروں کا برائے نام یا کوئی بھی شعور نہیں رکھتی تھی مگر  بچپن میں انسان کے بنائے ہوے قوانین، ضوابط میں بس بابا کو ہی جانتی اور مانتی تھی ـ

 میں آج آپ کو ملاتی ہوں ایک ایسی ہی ادباء سے جو اپنے بابا کی تربیت پر ناز کرتی ہوئی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں ـ

 آئیے ملتے ہیں ـ

” محترمہ شیبا حنیف،،

” السلام علیکم،،

 آپ کا نام ہے ـ

” شیبا حنیف “

 بقول محترمہ  کے:

 ”حضورﷺ کی دودھ شریک بہن“ کا نام  شیبا تھا ۔

 اسی مناسبت سے رکھ دیا۔

آپ کا قلمی نام ہے ـ

”شیبا حنیف“ ہے ۔

 آپ کا ماننا ہے کہ فرضی نام دینے کی بجا ئےاپنا اصل نام دینا پسند کیا۔

میری جائےپیدائش گجرانوالہ ہے اور ابھی تک یہی رہائش پزیر ہوں ۔ تاریخ پیدائش تین اگست  ہے۔

محترمہ اپنے والدین میں خصوصی طور پہ والد صاحب  سے متاثر ہو کر ان کا اعلیٰ درجے کا کردار، اور ان کی خوب صورت یادوں سے خراج تحسین پیش کرتی ہیں ـ

والد کا نام؛

” مرزا محمد حنیف ہے،،

وہ دنیا فانی سے کوچ کر چکے ہیں ۔ والد مرحوم کی خدمات و قربانیاں اپنے بچوں کے لیے گراں قدر ہیں میرے والد سرکاری ملازم تھے، اور یہ کہ بہت شفیق باپ ،  بہادر  انسان اور بیگمات سے محبت کرنے والے انسان تھے ۔ میرے والد نے دو شادیاں کی اور دونوں بیویوں سے عدل کیا۔ میرے والد کی میری والدہ جمیلہ بیگم سے ہی سات اولادیں ہوئیں دوسری زوجہ سے اولاد نہیں تھی ۔ میرے والد کی وفات کے کچھ ہی عرصے کے بعد ان کی دوسری زوجہ آنٹی شبانہ انتقال فرما گئیں۔ میرے والد ٹی بی کے مریض تھے ۔مگر آخیر عمر تک انہوں نے پانچ بیٹیوں ، دو بیٹوں کو پڑھایا، لکھایا انہیں مسلسل کوشش کا درس دیا ۔ مردانہ وار بیماری کا مقابلہ کیا۔ کبھی اسے خود پہ سوار نہیں کیا۔  خون تھوکتے بچوں کے لیے کبھی چاند گاڑی چلاتے ، کبھی چاٸے کی کینٹین  چلاتے ، کبھی گھر کے باہر  سبزی بیچتے ۔ اپنی  گھر و اولاد کے لیے کمانے میں کبھی کوئی شرم و عار محسوس نہیں کی ۔

ماشإاللہ سے اپنی سب اولاد کو اپنے گھروں میں آباد کیا۔ بیٹوں کو بیرون ملک بھیجا ۔ لگاتار محنت کی ۔ آخری عمر میں اللہ کے گھر کی زیارت کو گئے عمرہ کر کے آئے تو ہفتہ بعد خالق حقیقی سے جا ملے ۔ اللہ پاک نے میرے والد کو ان کی محنت  کا صلہ واجر اپنے گھر کی حاضری کے بعد گناہوں سے پاک صاف کر کہ اپنے در پہ بلا کہ دے دیا ۔ ان کی ساری محنت وصول ہو گئی ۔اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین

محترمہ کے کچھ  بہترین استاد ہیں ـ

 پہلی استاد تو ”مس رضیہ “ تھی۔ گورنمنٹ سکول تھا ۔نرسری سے پنجم تک مس رضیہ نے پڑھایا ۔ بہت مارا بھی مگر بہت اچھا پڑھایا ۔

اس کے علاوہ استاد ” آفتاب احمد خان “ ہیں جو اب تک میرے استاد ہیں جنہوں نے مجھے شاعری سیکھائی اور اب تک سیکھا رہے ہیں ۔ ”وہ کہتے ہیں اللہ تعالی نے ہر بندے کے لیے جگہ رکھی ہے ۔ اب یہ  بندوں پہ ہے کہ اپنی جگہ اپنی کوشش اور محنت  سے تلاش کرے،، ۔

محترمہ شیبا حنیف کی تعلیم ہے

 ایم اے اردو ، ایم اے، ایجوکیشن اور ایم بی اے ہیں مذید تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں اور انشإاللہ کروں گی ۔

محترمہ کے مشاغل ہیں ـ

بقول محترمہ کے ”اب تو اللہ بھلا کرے“ واٹس ایپ بنانے والوں کا ۔ فرصت کے اوقات ہو یا مصروفیات کے۔ یہی جان کو چپکے رہتے ہیں ۔ ویسے مجھے  غزلیں سننا اور عمدہ شاعری ، کہانیاں پڑھنا پسند ہے ۔

آپ کی اعلیٰ کارکردگی میں ـ

” گوجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی میں اسٹینوگرافر “۔

اعلی کارکردگی میں سکول میں گرل گائیڈ تھی تو انہوں نے پورے ہفتے کے لیے مری ٹور پہ فری بھیجا ۔ وہاں پورے پاکستان سے” بیسٹ گائیڈ“کا ایوارڈ لے کہ آئی۔ ماشاءاللہ اور اس کے علاوہ اپنے محکمے میں محکمانہ امتحان ایل ڈی سی سے یو ڈی سی میں ”فرسٹ پوزیشن“ حاصل کی ۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے پہلی دفعہ ایک کہانی لکھی ادبی فارم میں تو وہ ”انعام یافتہ ٹھہری“ ۔  کہانیاں شاعری پہ داد ملتی رہتی ہے ۔ کتاب ڈاٸریاں بھی مل جاتی ہیں ۔ کالنگ کارڈ بھی ملے ہیں انعام کے طور پہ ۔ اس کے علاوہ کچھ خاص نہیں ۔ تھوڑے نمبر لے کہ پاس ہوتی ہوں ۔ کسی کام میں پرفیکٹ نہیں ہوں  بحرحال کوشش جاری ہے درستگی کی  ۔

آپ اپنی  بہترین دوستوں کا ذکر کرتی ہیں ـ

میرے بچپن میں میری دوست نازیہ تھی پٹھانوں کی لڑکی تھی میں اس کے ساتھ لیلی مجنوں کھیلتی تھی ۔اور سکول کی دوست غوثیہ تھی۔ وہ اپنے ماں باپ کی” لے پالک بچی“ تھی ۔ اسے اس کے ماں باپ نے غربت سے مجبور ہو کہ کسی دوسرے کو دے دیاتھا، اب وہ میرے رابطے میں نہیں ہے” اللہ اس کے نصیب اچھے کرے “ آمین وہ جہاں ہو خوش ہو آباد ہو آمین ـ

آپ اپنی ازدواجی زندگی میں بہت خوش ہیں اور ہمیں بتاتی ہے کہ:

میں شادی شدہ ہوں ۔ میرے دو  بچے ہیں اور میں اپنے بچوں سے بہت پیار کرتی ہوں مگر میرے بچٕے مجھ سے زیادہ موبائل سے پیار کرتے ہیں ۔ انہیں موبائل دے دیں ۔ پھر چاہے ماں باپ دے یا نا دے انہیں کوئی فکر و پریشانی نہیں ۔اللہ سے یہی دعا ہے کہ بچوں کو خوش و آباد چلتا پھرتا ہماری  آنکھوں کے سامنے رکھے  آمین

محترمہ کی موجودہ مصروفیات ہیں ـ

کبھی ہانڈیاں تو کبھی صفائیاں

دفتر سے چھٹے تو گھر میں پھنسے

اللہ نے گھر دیا ہے بچے دیے ہیں دفتر ہے اور لکھنے لکھانے کا شوق ہے الحمد اللہ ۔ اللہ کی زات سارے کام کروا رہی ہے۔

آپ اپنے مستقبل کے لیے عمدہ  سوچ رکھتی ہیں ـ

مستقبل میں انشإاللہ بہت سی  کتب منظر عام پہ لاوںگی ۔ 

آپ کی پسندیدہ کتابیں ہیں ـ

  مرحوم والد  کی خریدی ہ بہت سی کتب ہیں ـ

 مولانا طارق جمیل صاحب “أللہ ان کا سایہ ہم پہ دیر تک سلامت رکھے آمین ۔ میں ان کے بیانات سنتی ہوں ۔”قاسم علی شاہ“باکمال انسان میں ان  کے لیکچر سنتی ہوں اس کے علاوہ   احمد فراز ، انور مسعود ، بشیر بدر، مظفر وارثی ، پروین شاکر ، ریختہ کے مشاعرے  زرون ، تہذیب حافی، جون ایلیا کی  شاعری بہت شوق سے  سنتی ہوں وہ بھی  موبائل  پہ کبھی  باورچی خانے میں ہانڈیاں بناتے ہوئے تو کبھی برتن دھوتے ہوئےتو کبھی  صفائیاں کرتے ہوئے۔ یہ موبائل نے بلاشبہ زندگی آسان کر دی ہے ۔

:محترمہ اپنے پڑھنے والوں کو پیغام دیتی ہیں کہ

میں فخر سے کہتی ہوں کہ میں اعلی تعلیم یافتہ ہوں ۔ شادی بھی ہوئی ، بچے بھی ہیں نوکری بھی کرتی ہوں مگر میں نے پڑھائی نہیں چھوڑی تھوڑا تھوڑا کر کہ پڑھتی ہوں ۔ اور کامیاب ہو جاتی ہوں۔ آپ بھی پڑھے تعلیم بہت اچھی چیز ہے کتابیں بہترین ساتھی ہیں  ان کا ساتھ مت چھوڑیں ۔ اگر آگے بڑھنا ہے تو” الف،  ب“ پہ یقین رکھنا ہے ـ

محترمہ کی اپنا میگزین کے لیے رائے ہے ـ

اپنا میگزین ایک اچھا پلیٹ فورم  ہے ۔ میں اس کی مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھے یہ عزت دی۔ میرے بارے میں پوچھا  اور مجھے حوصلہ میں خدمات سرانجام دینے کا موقع دیا  ۔ میں ایک نا چیز سی  گمنام سی بندی ہوں مجھے متعارف کروانے کا شکریہ ۔ میں جس بھی  لائق ہوئی  اس کے ساتھ ہوں ۔اس  کے ہمراہ چلنے میں فخر محسوس کروں گی ۔

اپنا میگزین ٹیم کا شکریہ کہ انہوں نے مجھٕے یہ مقام و مرتبہ و عزت دی ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اپنا میگزین ٹیم کو دن دگنی رات چگنی ترقی نصیب کرے آمین

Interview Sheeba Hanif by Apna Magazine

Scroll to Top