ملائکہ نصیر
بچپن زندگی کا وہ دور ہے جس میں انسان کو کوئی فکر نہیں ہوتی۔ لیکن بدقسمتی سے بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ بچوں کو بچپن نصیب نہیں ہوتا اور ایسا پاکستان میں ہزاروں بچوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں چائلڈ لیبر عام ہے۔ یہ بچے چائے کے ٹھیلوں، کارخانوں، گھروں اور سڑکوں وغیرہ میں ہر جگہ کام کرتے نظر آئیں گے، یہ وہ بدقسمت بچے ہیں جنہیں 24 گھنٹے ہر طرح کا مشقت والا کام کروایا جاتا ہے اور ان کو ملنے والی تنخواہ بھی بہت کم ہے اور کم تنخواہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بچے ہیں، جب کہ یہ بچے اپنے گھروں میں بڑے ہیں اور دوسروں سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ چائلڈ لیبر میں اضافے کی بڑی وجہ مہنگائی ہے۔ والدین گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اتنی رقم نہیں کما پا رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو اپنے ساتھ کام کروا رہے ہیں۔ بعض اوقات، والدین دونوں کی آمدنی اپنے خاندان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔ غربت کی وجہ سے یہ بچے پڑھائی ترک کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ بچے پڑھائی میں دلچسپی کھو دیتے ہیں۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 11.3 کے مطابق “کوئی بھی شخص جو 16 سال سے کم عمر کے بچوں کو ملازمت دیتا ہے یا ان کی ملازمت کی اجازت دیتا ہے اسے 20 ہزار جرمانہ یا قید کی سزا ہو سکتی ہے۔” اس قانون کے باوجود چائلڈ لیبر میں کمی نہیں آئی۔ ہم بچوں کو ہر جگہ کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں جیسے فیکٹریاں، ورکشاپ، سڑکیں اور مکان وغیرہ۔ 3.3 ملین سے زیادہ پاکستانی بچے چائلڈ لیبر میں مصروف ہیں۔
چند ماہ قبل انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے تحت ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں چائلڈ لیبر میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے تو ملک میں چائلڈ لیبر کا خاتمہ ممکن ہے۔ ہم ان بچوں کو ہر جگہ کام کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں، یہ بچے کم پیسوں میں روزانہ 8 سے 10 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ حکومت کو یہ نہیں معلوم کہ اس وقت کتنے بچے کام کر رہے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ہر سال سروے کرایا جائے کہ ملک میں کتنے بچے کام کر رہے ہیں اور ان بچوں کی تعلیم کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اگر اس صورتحال پر زیادہ توجہ نہ دی گئی تو ان بچوں کو منشیات فروشی اور جسم فروشی میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بچے ہمارا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ حکومت کو چاہئے ان بچوں کی پڑھائی کے لیے بہتر اقدامات کرے اور چائلڈ لیبر کو روک کر بچوں کو بچائیں۔
مصنف پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ماس کمیونیکیشن کی طلب علم ہے۔
[email protected]