شانزه قمر
برِاعظم ایشاء کی وسیع وعریض خطے میں ہماری معیشت کمزور ترین کہلانے کی مستحق ہے۔اس معیشت کو جہاں دیگر عوامل نے نقصان پہنچایا ہے، وہاں اسمگلنگ بھی ایک اہم اور بڑی وجہ ہے۔ سرکاری اداروں کے افسر ہوں یا اہلکاروں کو تنخواہیں اور مراعات اس لیے دی جاتی ہیں کہ وہ پوری لگن، جرات اور قانون کےمطابق اپنے فرائض ادا کریں۔ اسمگلنگ کے دھندے کو روکنا، ان ریاستی و حکومتی اداروں کی ذمے داری ہے، اگر افسر اور اہلکار اپنا فرض ادا کریں تو اسمگلنگ بے شک نہ رکے لیکن اس کی شرح نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی ۔میڈیا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے قرضے معیشت کے لیے خطرہ ہے۔ وزارت خزانہ نے ملک کی مالی صورت حال کمزور قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کے قرضوں کو مالی خطرہ قرار دے دیا۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جی ڈی پی گروتھ، مہنگائی، شرح سود، ایکسچینج ریٹ مالی خطرات کے عوامل میں شامل ہیں۔ بتایا گیا کہ سرکاری قرضہ جی ڈی پی کے 78.4 فیصد تک پہنچ گیا ہے اور یہ مالی خطرات کے عوامل میں شامل ہیں جب کہ سرکاری اداروں کے قرضے اور گارنٹیز جی ڈی پی کے 9.7 فیصد پر پہنچ چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سرکاری اداروں کے نقصانات بھی مالی خطرات میں شامل ہیں۔ پالیسی اقدامات پر عملدرآمد میں تاخیربھی مالی خطرات میں شامل ہے۔ پاکستان پر صرف غیرملکی قرضے ہی نہیں ہیں بلکہ ملکی قرضے بھی ہیں۔ یہ ملکی قرضے مختلف حکومتوں نے مختلف مالی اداروں سے لیے ہیں جب کہ بہت سے حکومتی ادارے بھی ملکی بینکوں کے قرض دار ہیں اور ان کا خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت ٹیکسوں میں اضافہ کرتی رہتی ہے۔ بجلی کے بلوں میں ٹیلی ویژن فیس اسی سلسلے کی کڑی ہے۔کستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے)کا مالی بحران بھی سنگین ہوگیا ہے۔ خبر میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پی آئی اے کی مختلف ایئرپورٹس کی گراؤنڈ ہینڈلنگ کمپنیوں کی ادائیگیاں نہ ہوسکیں۔ مالی بحران کے باعث لیز پر حاصل کیے گئے طیاروں کی ادائیگیاں بھی نہ ہوسکیں۔ پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 112ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ یہی حال ریلوے اور پاکستان اسٹیل ملز کا ہے۔ پاکستان ریلوے نے کرایوں میں اضافہ کر دیا ہے، ریل کے کرایوں میں 5 فیصد اضافہ کر دیا، ۔ ملک میں چلنے والی دیگر ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس کی وجہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، ایل پی جی اور توانائی کے دیگر ذرائع کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہونا ہے۔ محکمہ شماریات کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگست کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 27.4 فیصد تک بڑھی ہے۔ 21 فیصد تک مہنگائی کی شرح سرکاری ہدف ہے لیکن اس ہدف سے کہیں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مہنگائی کے باعث دیہات سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، دیہی علاقوں میں خوراک کی مہنگائی 40.6 فیصد تک پہنچ گئی اور شہروں میں یہ شرح 88.8 فیصد ہے۔ چینی کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وزارت فوڈ سیکیورٹی کی پریس ریلیز کے مطابق شوگر ملوں کے پاس 1.815 ملین میٹرک ٹن چینی کے تصدیق شدہ ذخائر موجود ہیں جو نومبر 2023 میں اگلے کرشنگ سیزن کے آغاز تک 1.8 ملین میٹرک ٹن کی کل ضرورت کے مقابلے میں کافی ہے، مارکیٹ میں چینی کی موجودہ قیمت میں اضافہ، منافع خوری، اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ہوا ہے۔ رواں برس جنوری میں چینی کی فی کلو گرام قیمت پچاسی روپے تھی جو ملک کے مختلف حصوں میں بڑھ کر ایک سو ساٹھ روپے فی کلو گرام سے ایک سو نوے روپے فی کلو گرام ہو چکی ہے۔ ایل پی جی کی فی کلو قیمت 201 روپے 15 پیسے سے بڑھ کر 240 روپے 12 پیسے ہوگئی ہے۔ اس صورت حال سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پورے ملک میں مہنگائی کا پھیلاو کس حد تک ہے۔ پاکستان میں گزشتہ پانچ چھ برس کے دوران مسلسل سیاسی عدم استحکام نے معیشت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے