شیبا حنیف
میں اور مریم ایک گورنمنٹ آفس میں جاب کرتی ہیں اور ساتھ ہی MBA بھی کر رہی ہیں الحمد اللہ سارا MBA کلئیر ہے مگر mgt201 ایسا مشکل سبجیکٹ کلئیر ہی نہیں ہو رہا اب اسی سبجیکٹ کی help کے لیے میں مریم کے سیکشن میں بیٹھی ہوں یہ سیکشن ایک مکمل طور پہ ایک ناقص گورنمنٹ دفتر کا کمرا دکھائی دیتا, یہاں کرسیوں سے زیادہ بندوں کی تعداد ہے, اکثر میزبانوں کو مہمانوں کو بیٹھانے کے لیے کرسیاں خالی کرانی پڑتی اور جو کرسیاں موجود ہیں ان کے اندر (کھٹمل ) پائے جانے کے امکان پائے جاتے ۔اسی لیے تو کرسیوں کے اوپر فائل کور رکھ کے ڈنک سے بچانے کی حکمت عملی کی جاتی اور بعض اوقات تو اسد سواتی صاحب ان پہ براجمان مہمانوں سے ازراہ ہمدردی پوچھ لیتے
” کچھ محسوس تو نہیں ہو رہا”
پہلے تو کسی کو کچھ محسوس نہیں ہوتا مگر دال میں کالا ہونے کے سبب پھر سب کو کچھ نہ کچھ محسوس ہونے ہی لگ جاتا ویسے میں بھی کافی دیر سے اسی کرسی پہ بیٹھی مریم کے سر کا انتظار کر رہی تھی صحیح بھی جب مجھے ان کا کوئی فارمولا کوئی کہانی کوئی بات سمجھ آنے ہی لگتی, کہ اٹھ کہ چلے جاتے, اور مجھے پھر سے انتظار کرنا پڑتا اور مجھے تو اسی بات کی فکر ستاتی رہتی ان کی بیگم تو ان سے بات کرنے کو ترس جاتی ہوں گی
“اسلام علیکم”
اسی سوچوں بیچار میں ایک آواز سنائی دی اور میں نے شکر کیا کہ سر آ گئے یہ میرے میتھ کے ٹیچر کی انٹری کا مخصوص انداز تھا جاتے وقت کہہ کہ جاتے
“میں ابھی آیا ,آپ پڑھے “
اور جتنی دفعہ بھی کمرے میں آتے بلند آواز سے ضرور سلام کرتے اور مجھے تو کبھی سلام کا جواب دینے کا موقع ہی نہیں ملا کیونکہ ہر دفعہ دل سے شکر اللہ جو نکل جاتا تھا۔(سر عمران نذیر رانجھا قد کاٹھ سے تو پکے کسی گاؤں کے ہی لگتے ہیں اب بھلا ٖشہر کی مصنوعی خوراکیں اتنا لمبا چوڑا بندہ کیسے پیدا کر سکتی ہیں ؟ یہ قد کاٹھ تو خالص دیسی گھی کے پراٹھے اور لسیوں کے ڈول پینے سے ہی مل سکتا ہے ۔ویسے دیکھنے میں اچھے خاصے خوب صورت, بارعب شخصیت, اور اپنے گاؤں کے وہ ہونہار سپوت جو اپنی سرکاری گاڑی جب کچی پگڈنڈیوں والی سڑک پہ لے کے جاتے ہوں گے تو گاؤں کے گندے ملندے بچے دور تک ان کا پیچھا کرتے ہوں گے اور بعض تو ہاتھ لگا کہ دیکھتے ہونگے گاڑی ایسی ہوتی ہے اور جب وہاں پنچائیت بیٹھتی ہونگی تو ان کی ذہانت کے قصے سب کو سنائے جاتے ہونگے
“پڑھ لکھ کے بڑا آفیسر بن گیا ہے, گاڑی میں آتا ہے “
گاؤں تک تو معاملہ ٹھیک تھامگر انہوں نے تو شہر میں بھی آکہ اپنی ذہانت کے جھنڈے گاڑ دیئے ,وہ جو ان کی سائیڈ ٹیبل ہے ناں جہاں کمپیوٹر پڑا ہے وہاں پانچ سات شیلڈ پڑی ہیں
سر ۔ “کیا حاک ہے شانزے؟ وہ حال ضرور پوچھتے تھے
میں ۔ “شکر ہے اللہ کا “
سر ۔ ” کل کیا پڑھا تھا ؟
میں ۔”رجسٹر پہ لکھا ہے “جو کل پڑھا تھامیں وہ صفحہ کھول رہی تھی دیکھے بغیر مجھے یاد نہیں آتا تھا کہ میں نے کیا پڑھا ہے ۔
سر ۔ انہوں نے کتاب ہاتھ میں لی اور حساب کی باتیں جو مجھے اردو میں بھی نہ سمجھ آئے وہ انہوں نے انگریزی میں پڑھانا شروع کر دی پھر زرا وقفہ کیا میری طرف متوجہ ہوئے ۔ “کیا پڑھایا ہے میں نے, کیا سمجھ آئی ہے ؟ انہوں نے پوچھا
میں ۔”وہ سر آپ بولتے ہیں مجھے سمجھ نہیں آتی, ” پھر میں نے ڈر کے ان کی طرف دیکھا ایک طویل لیکچر کے بعد یہ الفاظ کہیں وہ غصہ ہی نہ کر جائیں پھر میں نے آہستہ سے کہا
” تیز ہی اتنا بولتے ہیں “
سر۔ یقینا دھچکہ تو لگا وہ رکے اور انہوں نے کہا
” وہ کالج کی عادت پڑی ہے ناں تیز, تیز بولنے کی, “
میں ۔ ” سر وہ جو ابھی آپ نے انگریزی میں بتایا ہے ناں اس کا اردو ترجمہ کر کہ بتائیں میں نے لکھنا ہے آہستہ بولیے گا زرا “
سر ۔ اب میرے حساب کی کتاب کے ایک ایک لفظ کا انگریزی میں لکھے الفاظ کا اردو ترجمہ کر کہ سمجھاتے جسے میں رجسٹر پہ لکھ لیتی :۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلادن ورچوئل یونیورسٹی کا کامن روم وہاں کوئی موجود نہ تھا سوائے میرے اور مریم کے
مریم ۔” اچھا پھر کب جاناہے ؟
میں ۔کہاں؟
مریم ۔ہنستے ہوئے نیوروسرجن کے پاس, “وہ سر کہہ رہے تھے ناں کسی نیوروسرجن کو دکھاؤ اس سے کہو مجھے جلدی جلدی باتیں سمجھ نہیں آتی “
میں ۔ “ہونہہ ” منہ بنا کے
مریم ۔ “میں تو کہتی ہوں قاسم علی شاہ سے بات کر لو,”اس نے بڑے سمجھ دارانہ طریقے سے بڑے قابل بندے کا پتہ بتاتے ہوئے کہا:۔
میں ۔ ” کیا کہوں میں اس سے ؟ میں نے بے دھیانی سے پوچھا
مریم ۔ ” کہنا میرے سر کہتے ہیں میں دھیان نہیں کرتی, غور نہیں کرتی, جبکہ میں تو دھیان کرتی ہوں, میں تو غور کرتی ہوں, حالانکہ وہ خود غور نہیں کرتے جب کہ ان کی شادی کی عمر نکلی جا رہی ہے ” ہنستے ہنستے مجھ سے ہی لپٹ گئی :۔
۔۔۔۔۔
اگلے دن میری انکوائری سیکشن میں پھر سے انکوائری لگی ہوئی تھی
سر۔ کل کیا پڑھا تھا ؟ خالص سرکاری ٹیچروں والا انداز
میں ۔ ” وہ fixed Asset.,capital budgeting “
آخر میں نے کچھ نا کچھ تو بتا ہی دیا ہو گا
سر ۔” ساری theory کا کچومر نکال دیا,میں پڑھاتا ہوں اگلے دن سارے concept کے ہاتھ پاؤں توڑ کے میرے سامنے لے آتی ہے, یہاں کوئی اور لڑکا ہوتا نا, تو ڈنڈے مار مار کے پڑھانا تھا “
……….
میں اپنے کیبن میں سارے آفس سے الگ تھلگ پرسکون کونے میں جہاں صرف میں ہوتی اور میری تنہائی اور میں اپنی ہی کمپنی بہت انجوائے کرتی ایک چھوٹا سا ٹیبل جس پہ کمپیوٹر, ایک عدد اسٹینو سیٹ, آفس ڈائری کا رجسٹر, قرآن پاک, دودھ, چیبی, پتی, چائے کا سارا سامان اور میری پرسنل ڈائری, جس پہ میں لکھتی ہوں اشعار اور اپنے دل کا احوال
“اسے میں آزمانا چاہتی ہوں
کوئی پردہ اٹھانا چاہتی ہوں
مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے
اسے میں یہ بتانا چاہتی ہوں
ہر ایک پتھر جو حائل درمیاں ہے
اسے راہ سے ہٹانا چاہتی ہوں
تمہارے ساتھ میں جو گزرا ہوا ہے
وہی گزرا زمانہ چاہتی ہوں
کہانی اپنی چاہت کی سنا کے
اسے پھر سے رلانا چاہتی ہوں “
ٹک موبائل سکرین پہ پیغام نمودار ہوا, جسے میں ڈائری سے نظریں ہٹا کے دیکھتی ہوں سکرین پہ مریم کا نام جھلملا یا تو میں نے ڈائری بند کر کہ موبائل ہاتھ میں پکڑ لیا۔
مریم ۔” بات سنے ” کا پیـغام موصول ہوا
میں ۔ ” ہاں جی بولیے ” میرا جواب
مریم ۔ “کوئی اچھی سی لڑکی ہے نظر میں”
میں ۔ ڈھیر لگا ہوا ہے
مریم ۔ تو پھر کوئی بتاؤ سر کے لیے
میں۔ اس کا پیغام پڑھ کے میرے ہونٹوں پہ شرارتی سی ہنسی آگئی, “میں ہی ناں, کر لوں سر سے شادی, نوے ہزار تنخواہ ہے ان کی ” مسکراتے ہوئے میں نے ریپلائے کیا
مریم ۔ بہت اچھے انسان ہیں بہت اچھی لڑکی ڈیزرو کرتے ہیں ۔
میں ۔ مسکراتے ہوئے ” ہاں اچھے تو بہت زیادہ ہیں, اس لیے تو بہت اچھی لڑکی کا بتایا ہے میں نے تمہیں “
مریم ۔ سر کو ناں مذہبی لڑکیاں پسند ہیں انہیں زیادہ ماڈرن لڑکیاں پسند نہیں “
میں الحمد اللہ میری زندگی حجرے میں گزری ہے تم بات آگے بڑھانے والی بات کرو ” مستقل ہنسی میرے ہونٹوں ست چپکی ہوئی تھی
مریم ۔ اچھا مذاق چھوڑو بتاؤ نا کسی لڑکی کا ؟
میں ۔ یار ہمیں کیا پتہ کسی کے دل کا؟ شاید سر کی منگنی شنگنی ہوئی ہو, نکاح وغیرہ ہوا ہو, کسی کے ساتھ کمٹمنٹ ہو
مریم ۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے
میں ۔ تمہیں کیسے پتہ ؟
مریم ۔ کمرے میں جو بھی آتا ہے سر کو کہتا ہے اب وہ شادی کر لیں
میں ۔ ہنستے ہوئے ” بیچلر ڈیلیمہ یاد ہے بی اے میں کہانی پڑھی تھی شادی ہو, تب بھی حسرت اور ہو جائے تو کیوں کی اس پہ افسوس
مریم ۔ ہمارے سر اچھے ہیں ناں ؟جانے کس دھن میں اس نے پوچھا
میں ۔ ہاں مگر ڈانٹتے بہت ہیں ساری زندگی ڈانٹ ہی پڑتی رہے گی کبھی ہسٹری تو کبھی جنرل نالج, اور بغیر آپشن کے سوالات کریں گے جن کا جواب نہ آنے پہ سارے گھر والوں کے سامنے بے عزتی
مریم ۔ اور world map کھول کے گھر بیٹھے بیٹھائے ساری دنیا کی سیر کروائیں گے North میں کیا ہے ؟ East میں کون سا پہاڑی سلسلہ ہے ؟ ,سب سے بڑے ملک کا capital, چھوٹی city کا نام,
میں ۔ عشق حقیقی کی باتیں ہوں گی ؟
مریم ۔ تو تم عشق مزاجی چھیڑ دیا کرنا, عشق مزاجی ہی تو عشق حقیقی کی طرف لے کہ جاتا ہے
میں ۔ میں اتنا پڑھا لکھا بندہ ہضم نہیں کر سکتی ۔مجھے سر کی ایک کتاب کی ہی سمجھ آ جائے کافی ہے سارے سر سمجھنے کی ضرورت نہیں ہیں میں اپنی ہمت سے زیادہ کی خواہش نہیں کر سکتی
مریم ۔ تو ؟
میں ۔
Your sir is not approved from me. He is rejected
مریم۔
Objection my Lord
,میں ۔
Objection over ruled
مریم ۔
I object
میں ۔
The case is dismissed its over
مریم ۔
I, I Object
میں ۔
Why?
مریم ۔ تو تم سر سے ایک affidavit ,لے کہ شادی کرنا
میں ۔ وہ کیا؟
مریم ۔ تم کہنا سر آپ نے مجھے ڈانٹنا نہیں ہیں ڈائریکٹ مارا کرنا ہے, پھر چاہے جوتوں سے مارے, یا ڈنڈوں سے,
اس کے ساتھ ہی کھی کھی کرتے سمائلنگ icon
میں ۔ ہونہہ :..
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں انکوائری سیکشن میں
سر۔ “مڈ شڈ آنے والے ہیں “
میں ۔ جی
سر ۔ انٹرسٹ ریٹ کا فادمولا کیا ہے ؟
میں ۔ بول کے نہیں آتا لکھ کے آتا ہے
سر۔ اچھا آپ لکھ کے دکھائیں
میں ۔ رجسٹر آگے کرتی ہوں اور جو ذہن میں آتا ہے اسے لکھ دیتی ہوں اور وہ خوش نصیبی سے ٹھیک بھی ہوتا ہے سر اسے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں ” ہاں ٹھیک ہے کیسے لکھا پیچھے سے دیکھ کے تو نہیں لکھا”
میں ۔ نہیں دیکھ کے نہیں لکھا سر,روز میں فارمولے یاد کرتی ہوں
سر ۔ ہاں میرا وقت بہت قیمتی ہیں اسے ضائع مت کرو
سر ۔ کچھ student ایسے ہوتے ہیں جو خالی جھولی لے کہ آتے ہیں مگر جب وہ جاتے ہیں جھولی بھری ہوئی ہوتی ہے اور کچھ student ایسے ہوتے ہیں جو بھری ہوئی جھولی لے کہ آتے ہیں مگر جب جاتے ہیں تو جھولی خالی ہوتی ہے اور کچھ سٹوڈنٹ ایسے ہوتے ہیں جو بہت پیارے ہوتے ہیں جنہیں اللہ نے بہت پیارا بنایا ہوتا ہے مگر اندر سے زیرو ہوتے ہیں اب آپ نے دیکھنا ہے کہ آپ ان تینوں میں سے کون سی کیٹگری کی سٹوڈنٹ ہے :۔
۔۔۔
میں گھر جا کے ٹھنڈے فرش پہ نیم غنودگی کے عالم میں, سیدھی لیٹی ہوئی, ہاتھ پاؤں ڈھیلے, لمبی لمبی سانسیں بھرتے ہوئے, آنکھیں بند, چھوٹی بہن پاس بیٹھی حیرت و پریشانی کے ملے جلے تاثرات لیے میرے پاس بیٹھی پوچھتی ہے ۔
چھوٹی ۔ آپی کیا ہوا؟
میں ۔ خاموش
چھوٹی ۔ کیا میتھ کے ٹیچر نے آج پھر ڈانٹا ہے ؟
میں ۔ خاموش
چھوٹی ۔ سر نے ڈانٹا ہے کیا؟
میں ۔ ہاں آہستگی سے
چھوٹی ۔ ہائے ہائے میں نے بھی آپ کے وہ سر دیکھنے ہیں جو ڈانٹتے رہتے ہیں ۔ میں نے بھی ان سے ملنا ہے اس نے ایسے خوش ہو کہ کہا جیسے میں ان سے بہت بڑی شیلڈ لے کہ آئی ہوں اور ان سے ملنے کی خواہش تو یہ بڑے دن سے کر رہی تھی کہ ڈانٹنے والے سر دیکھنے ہیں پھر وہ میری طرف متوجہ ہوئی اور فکر مندی سے بولی ۔
چھوٹی ۔ کھانا لاؤں ؟
میں ۔ مجھے بھوک لگی ہے مگر میں کچھ کھانا نہیں چاہتی, نیم غنودگی میں جواب دیا
چھوٹی ۔ اچھا پھر سو جاؤ
میں ۔ ہاں میں سونا چاہتی ہوں مگر مجھے نیند نہیں آ رہی
چھوٹی ۔ پریشانی سے میرے بالوں کو سہلاتے ہوئے , کیا ہوا ہے ؟ ڈانٹ تو روز ہی پڑتی ہے آج تو لگتا ہے آپ کے سر نے آپ کو ڈنڈوں سے مار مار کے بھیجا ہے, اس نے ہنسی چھپاتے ہوئے فکر مندی سے کہا
میں ۔ مجھے محبت ہو گئی ہے آنکھیں بند, ہونٹ ہلے
چھوٹی ۔ انتہائی تشویش ناک انداز میں ” کس سے “
میں ۔ اپنے میتھ کے ٹیچر سے
چھوٹی ۔ ہاہاہاہا اب سر کہۓ گے نیوروسرجن کے ساتھ ساتھ ہارٹ اسپیشلسٹ کے پاس بھی جاؤ:۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورچوئل یونیورسٹی کا محتصر سا لان جہاں پیپر دینے کے بعد کچھ چہرے خوش, کچھ خوشی سے انجان, غرض الگ الگ چہرے الگ الگ دلوں کا حال بتاتے ہوئے اور ان چہروں میں میرا اور مریم کا بھی چہرا تھا وہ خوش تھی
مریم ۔ پیپر کیسا ہوا ؟
مریم میری سب سے اچھی دوست ہے جو پوری طرح مجھ سے مخلص ہے وہ جتنی محتاط اور باپردہ ہے میں اتنی ہی لاپرواہ اور خیالی دنیا میں رہنے والی مگر ہم دونوں ایک دوسرے پہ اپنے خیالات مسلط نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتے ہیں جس نے ہمیں ایک دوسرے کے قریب کر دیا اب وہ پاس تھی اور میں فیل مگر وہ مجھے بار بار کہتی ” تو تم میرے سر سے پڑھ لو نا ؟ اور میں ہر دفعہ انکار کر دیتی ۔۔۔
” نہیں, میں نے ان سے نہیں پڑھنا”
بارعب ہی اتنے ہیں بہت خوف آتا تھا مجھے ان سے, اور ان کی student ہونے سے پہلے میں یہ دعا کر کہ جاتی
” یا اللہ سر کمرے میں نا ہو “
اور ان کی آمد پہ ہر بار میرے منہ سے یہی نکلتا,
” ہائے اللہ یہ پھر سے آ گئے ہیں اب کیا کروں ؟
مریم ۔ پیپر کیسا ہوا ہے ؟
مریم نے سوچوں سے جھنجھوڑ کے باہر نکالا
میں ۔ خاموش
مریم ۔ ” جو سر نے پڑھایا تھا, وہ آیا تھا کہ نہیں, “
اس نے گہرا صدمہ لیے آواز میں پوچھا
میں ۔ خاموش
مریم ۔ ” سر نے جو پڑھایا تھا کیا اس میں سے کچھ بھی نہیں آیا “؟
انتہائی شاکڈ تاثرات ۔ میں نے اس کی فکر مندی دیکھتے ہوئے کہا
میں ۔ پتہ نہیں ۔
مریم ۔ کیا پتہ نہیں ؟ پیپر ٹھیک نہیں ہوا کیا ؟
آخر وہ بھی سر کی شاگرد تھی میری خوب شامت لینے کے موڈ میں تھی ہمارے سر کی روزوں کی مخنت ہے ,روزہ رکھ کے دو, دو, تین, تین گھنٹے پڑھایا ہے تمہیں انہوں نے, بغیر کھانا کھائے ان سے پڑھایا نہیں جاتا تھا تم نے ان کے روزے خراب کیے ان کی بھوک پیاس کی شدت کو مذید آزمایا “
وہ انتہائی غصے میں تھی
میں ۔” میں نے پیپر دینے سے پہلے ان سے معافی مانگ لی تھی اگر میں فیل ہو گئی تو مجھے معاف کر دیجیے گا ” میں نے اس کی برہمی دور کرنے کے لیے نرمی سے کہا
مریم ۔ تیور بدل کے خالص گھریلو عورتوں کی طرح آستین چڑھاتے ہوئے
” تمہیں معافی نہیں سرعام پھانسی دینی چاہیے سو کوڑے مارنے چاہیے نالائق تم نے سر کی دو, دو گھنٹوں کی محنت ضائع کی, تم فیل ہو زرا ساری عمر میرے سیکشن میں نا آنا, تمہیں سنگسار کرواؤں گی میں, غضب خدا کا, ایک بندہ روزہ رکھ کے اسے دو, دو گھنٹے پڑھاتا رہا, اور یہ”
وہ انتہائی صدمے میں تھی
میں ۔ ایک طویل خاموشی کے بعد
” تو میں نے بھی تو دو, دو گھنٹے تمہارے سر کا انتظار کیا ہے پڑھاتے پڑھاتے چھوڑ کہ چلے جاتے تھے انتظار میں بیٹھی رہتی تھی, اتنا انتظار میں نے بھی کبھی کسی کا نہیں کیا, انہوں نے روزے خراب کیے تو میں نے بھی تو ان کی خاطر کتنی نمازیں قضاء کی, ؟ کتنے سجدے غلط ادا کیے, اپنی شاعری کو چھوڑا, جہاں ہر وقت شعر گنگناتی تھی وہاں ربی زدنی علماء پڑھنے لگی, ڈرائیونگ کلاسز کے دوران ان کے فارمولے میرے ذہن میں گھومتے رہے”
مریم ۔ syntax تو پھر بھی پورا نہیں کیا نا تم نے؟
اس نے آنکھیں نکالیں
میں ۔ وہ کیسے ؟
مریم ۔ لاحول ولاقوة تو نہیں نا پڑھا تم نے , وہ بھی تو پڑھتی, وہ بھول گئی تھی کیا؟
مصنوعی خفگی سے بولی
میں ۔ اب سے پڑھ لیا کروں کیا ؟
میں تو معصوم ہی ہوں ویسے اور معصومیت سے ہی پوچھا ۔ جس پہ مریم نے دماغ پہ زور دیتے ہوئے کہا ۔
” اب کچھ نہیں ہو سکتا بچے, اب تمہیں جن چمٹ چکا ہے اس نے بزرگانہ انداز اپناتے ہوئے کہا
(اوئے بچے کہنے سے یاد آیا) مریم کے تاثرات بدلے
” سر تو بچے بچے کہہ کہ نہیں پڑھاتے,”
میری طرف دیکھا
میں ۔ پہلے پہلے سارے ایسے ہی کہتے ہیں.
میں نے لاپرواہی سے سر جھٹکا
مریم ۔ تمہیں کیسے پتہ ؟
تیکھے انداز میں پوچھا
میں ۔ اوہو کہنے سے کچھ نہیں ہوتا پریکیٹیکل کر کہ دکھانا پڑتا ہے, یاد نہیں پہلے سارے بہن بھائی ہی ہوتے ہیں ۔
مریم ۔ کیسے ؟ اس نے اپنی بانہیں میرےلیے کھول دیں اور میں ان میں سما گئیں
” ایسے “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکوائری سیکشن
سر اپنی سیٹ پہ خوب صورت ویل ڈریسڈ وہ کسی بھی اینگل سے کسی بھی ہیر کے رانجھے نہیں لگتے تھے , ہاں کسی انگریزی فلم کے ہیرو جیسے ضرور ہیں,
میں ۔ “سر میں اتنی دیر سے آپ کا انتظار کر رہی تھی”
اور یہ شکوہ میں کافی بار کر چکی تھی
سر ۔ “پڑھائی کے لیے دھکے کھانے پڑتے ہیں
سر ۔ مڈ میں کتنے نمبر آئے ہیں “
میں ۔ پاس ہو گئی ہوں
سر ۔ میرے سٹوڈنٹ تو صرف پاس نہیں ہوتے, بہت اچھے نمبر لے کہ بہت آگے تک جاتے ہیں
میں ۔ میں بھی پاس ہو جاؤں گی
سر ۔ انشاءاللہ
سر۔ پھر تھوڑے وقفے کے بعد میتھ مشکل سبجیکٹ ہے, مشکل سے سمجھ آتا ہے
میں ۔ مگر اب مجھے میتھ مشکل نہیں لگتا
سر ۔ اچھا اب میتھ مشکل نہیں لگتا
میں ۔جی اب مجھے میتھ مشکل نہیں لگتا, وہ شاید مسکرا رہے تھے اور میں بھی
اور میری ڈائری کے اگلے الفاظ یہ ہونگے
وہ جو دل میں آگیا ہے اب وہ جائے گا کہاں
وہ ضروری ہو گیا ہے آدمی میرے لیے
اس کی آنکھوں میں ہوئی ہے روشنی میرے لیے
کتنا اپنا ہو گیا ہے اجنبی میرے لیے
میرے آنگن میں ہے اتری چاندنی میرے لیے
کتنی پیاری ہوگئی ہے زندگی میرے لیے ۔۔
۔۔
جب کہ اپنے سسٹم پہ بیٹھی مریم یہ سوچ رہی تھی ویسے سر بھی بڑے چالاک ہیں کل جب قرآن پاک کھول کے قرب قیامت کی نشانیاں بتا رہے تھے اس میں یہ پوائنٹ تو سکپ ہی کر گئے آخری صدی میں رانجھے اپنی ہیروں کو بانسری سنانے کی بجائے میتھ کے فارمولے یاد کروایا کریں گے ۔۔۔۔