مشعل فاطمہ
غصہ اور چڑچڑاپن صرف بالغ انسانوں تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ یہ بچوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بچوں کے غصے اور چڑچڑے پن کی طرف عموماً لوگ خاص توجہ نہیں دیتے، جس کی وجہ سے معاملات بگڑ جاتے ہیں اور بچوں کی شخصیت پر ایک ہمیشہ رہنے والا برا اثر قائم ہوجاتا ہے۔۔ سب سے اہم بات جو کہ یاد رکھنا نہایت ہی ضروری ہے کہ عمر کے ابتدائی برسوں میں والدین اور بڑوں کی اچھی تربیت ہی بچوں کی آئندہ زندگی میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ والدین اور بڑوں کو چاہیے کہ وہ اس بات کو تسلیم کرلیں کہ غصہ ایک ایسا جذبہ ہے جو بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں میں بھی موجود ہوتا ہے
والدین کا کردار۔ بچوں کی شخصیت سازی اور جذباتی اتار چڑھاؤ میں والدین کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ اگر والدین کی طرف سے بچوں کی تربیت میں کسی بھی قسم کی کمی رہ جائے تو اس چیز کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے کہ بچوں میں غصہ یا چرچڑا پن آجائے۔ مثال کے طور پر جن بچوں کو والدین کی طرف سے بے جا ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان بچوں میں چڑچڑا پن پیدا ہونے کے امکانات نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔والدین کے آپس کے معاملات بھی اس حوالے سے نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ والدین جو ہر وقت آپس میں بچوں کے سامنے لڑتے رہتے ہیں، ان کے بچوں میں غصہ اور چڑچڑے پن کے جذبات تیزی سے پروان چڑھتے ہیں۔ماں باپ بچے کی ضد پوری کرنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے جب والدین بچوں کی ضد پوری کرنے سے قاصر ہوتے ہیں لیکن چونکہ بچے کو اس بات کی عادت ہوگئی تھی اور اب اچانک سے والدین کے منع کرنے پر اس کے اندر چڑچڑاپن پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔بچوں کے ارد گرد کا ماحول بھی ان میں جذبات پیدا کرتا ہے۔وہ آس پاس کے ماحول کا پوری طرح سے اثر لیتے ہیں۔۔ اگر بچوں کو کسی بھی قسم کے منفی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ عین ممکن ہے کہ بچے کے اندر غصہ اور چڑچڑاپن پیدا ہونا شروع ہوجائے۔ مثلاً بچوں کے کاموں میں بے جا مداخلت، کسی غلطی پر مذاق اڑانا، بات بات پر طعنے دینا، یا پھر بچوں پر ہاتھ اٹھانا وغیرہ شامل ہیں۔والدین کے آپس میں چاہے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں انہیں اپنی جنگ بچوں کے سامنے نہیں لڑنی چاہیے کہ اس سے بچوں کے اندر انتہائی منفی جذبات جنم لیتے ہیں، جو زندگی بھر ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔بچوں میں مثبت باتوں کو پروان چڑھانا ہے تو والدین کو اپنے جذبات پر کنٹرول رکھنا ہوگا۔
والدین اپنے مزاج میں اور بچوں کی تربیت میں میانہ روی کو اہمیت دیں۔ مثلا آپ کچھ اپنی منوائیں اور کچھ ان کی مانیں۔ شروع سے یہ اصول اپنا لیجئے کہ بچے کی ہر جائز خواہش کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں لیکن کسی بھی قسم کی ناجائز ضد کو نرمی اور سمجھداری کے ساتھ رد کردیں۔بچوں کے اردگرد کے ماحول اور ان کے مزاج پر نظر رکھنا ہے۔ آپ وقتاً فوقتاً بچوں کے اساتذہ اور ان کے دوستوں سے ملاقات کرتے رہیں اور اپنے بچے کی عادات پر بھی خاص نظر رکھیں کہ کہیں اس کی کسی عادت میں بہت تیزی سے کوئی تبدیلی رونما تو نہیں ہورہی؟ اگر ایسا ہے تو پیار و محبت کے ساتھ دوستوں کی طرح بیٹھ کر بچے سے اس چیز پر بات کریں اور بچے کو یہ باور کروادیں کہ آپ کو اس کے مسئلے اس کی بات سے پوری طرح سے دلچسبی ہے ۔