خواتین وکلا کی مشکلات

شانزه قمر

کلائنٹ زیادہ تر میل وکلاء کی طرف جاتے ہیں اس کی وجہ کچھ (فوجداری کسیسز ) کسی بھی قسم کے مجرمانہ معاملات میں خواتین وکلا پولیس اسٹیشن میں رات گئے نہیں جاسکتی اس لیے تھوڑی سی خواتین وکلاء کے لیے صورتحال مشکل ہو جاتی ہے کام کے لحاظ سے خواتین وکلاء مرد وکلاء کے ساتھ شانہ بہ شانہ ہی کام کرتی ہیں خواتین وکلاء پریکٹس کے لحاظ سے کسی قسم کی کمی نہیں ہے بس سماجی مسائل ضرور ہیں جہاں بھی خواتین ہیں دُنیا کے کسی بھی ملک میں ہیں چاہے وہ کتنے ہی ترقی یافتہ کیوں نا ہوں خواتین کو مسائل کا سامنا ضرور ہوتا ہے۔ پاکستان میں خواتین کے لیے مسائل زیادہ ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان خواتین کے معاملے میں ابھی بھی پسماندہ ہے اس لیے یہاں پر خواتین کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ جیسے جیسے ہمارا معاشرہ ترقی کرتا جا رہا ہے خواتین کو بھی اپنے قانونی حقوق کا علم ہو رہا ہے خواتین میں تعلیمی شعور بڑھ رہا ہےخواتین کو کوٹہ نمائندگی سے ماضی و حال میں مکمل طور پر دور رکھا گیا ہے سپیشل ہم بطور وکیل اپنے پروفیشن پر بات کریں تو عدالتی نظام ڈسٹرکٹ کورٹ راولپنڈی میں کچھ خواتین ججز مل جائیں گی لیکن راولپنڈی ہائی کورٹ میں دیکھیں تو کوئی فی میل خاتون جج ہائی کورٹ میں نظر نہیں آئیں گی اُن کا نام آج تک آیا نا کبھی شامل کیا گیا جو صنفی امتیاز کی بڑی مثال ہے ہم چاہتے ہیں کہ ہائی کورٹ ججز کے لیے بھی خواتین کی بھی مخصوص سیٹیں ہوں جس پر خواتین الیکٹ ہو کر اپنی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دیں سپریم کورٹ میں صرف ایک خاتون جج موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بھی گورنمنٹ کی پالیسیوں کے مطابق بھی یہی کوشش کی جاتی ہے کہ میل حضرات کو ہی تعینات کرتے ہیں خواتین کے مطلق یہ بات صرف کہنے کی حد تک ہے کہ خواتین ہماری ساتھ ہر شعبہ میں موجود ہیں عملاً ایسا کچھ نہیں ہے خواتین کو مساوی حقوق کے دعوے جو کیا جاتا ہے عملاً اس کی کوئی حقیقت نہیں اور حقیقت اس دعوے کے بلکل برعکس ہے کوئی بھی سیاسی پارٹی ہو جب وہ اقتدار حاصل کر لیتی ہے خواتین کو کسی نشست پر لانے کی بات ہوتی ہے یا کسی کوٹہ میں حق کی بات ہوتی ہے تو یہی کوشش کی جاتی ہے یہ میل حضرات کو ہی اس میں لگایا جائے اور خواتین کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
خواتین کو ہراسمنٹ کرنے کا جو سلسلہ دور جاہلیت سے چلتا آ رہا ہے جو جاری ہے سوشل میڈیا کے آنے سے زیادہ نمایاں ہو گیا ہے اگرچہ کہ اس مسئلہ پر نئی قانون سازی کی جا چُکی ہے جس میں پیشہ ورانہ کام کرنے جگہ گھر کے اندر یا سائبر کرائم کے ذریعہ ہراسمنٹ کی شکایت کرنے کے لیے بہت سے آن لائن کمپلین سیل بنا دیے گئے ہیں جہاں خواتین اپنی شکایت با آسانی درج کروا سکتی ہیں۔جب ہم لآ پریکٹس کرتے ہیں تو ہمارے ہاں میل یا فی میل کا کوئی وجود نہیں لاء پریکٹیشنر ایکٹ بھی دیکھتے ہیں تو اُس میں وکیل کا ذکر کیا گیا ہے اس میں میل وکیل یا فی میل وکیل نہیں لکھا وکیل وکیل ہوتا ہے اس میں کوئی تقسیم نہیں کی جاتی میل وکلاء یا خواتین وکلاء کے حوالے سے جہاں تک بار کونسلز کا تعلق ہے تو وہ مرد اور خواتین دونوں کا مکمل خیال رکھتی ہیں ان کی شکایات پر پوری طرح عمل کیا جاتا ہے اگر خواتین کا الگ سے بار کونسلز کا قیام عمل میں لایا جائے اس سے خواتین کی بھرپور حوصلہ افزائی ہو گی خواتین وکلاء بار کونسل کی تجویز پر اگر عملی پر اقدامات کرنے سے خواتین براہ راست خواتین کے حقوق اور اُن کے مسئلہ مسائل کو سامنے رکھا جا سکتا ہے جو خواتین وکلاء کی مسائل کے حل اور اُن کی بہتری کیلئے بہترین فورم میسر ہو گا۔

Scroll to Top