شارف علی
پنجاب یونیورسٹی لاہور
پاکستان میں میڈیا سیفٹی پر پچھلے دس پندرہ سال میں بہت کام ہوا ہے۔ پاکستان بھر میں شاید ہی کوئی صحافی ایسا رہ گیا ہو جسے مختلف این جی اوز، صحافتی تنظیموں اور پریس کلبوں کی جانب سے آگاہی نہ دی گئی ہو کہ انہوں نے تنازعات کو کیسے رپورٹ کرنا ہے مگر اس کے باوجود گذشتہ سال پاکستان میں 4 صحافی قتل ہوئے۔ پاکستان میں میڈیا کے بڑے بڑے اداروں میں صحافیوں کے کالم سینسر ہونا معمول بن چکا ہے۔ میڈیا ہاؤسز پر دباؤ ڈال کر کئی صحافیوں کو پہلے ہی فارغ کرایا جا چکا ہے۔ صحافیوں نے مجبوراً اپنی خبروں اور اظہار رائے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا تو اسے بھی بند کرانے کے لیے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔
صحافیوں پرحملے اورپابندیاں
مئی 1999 میں نواز شریف کے ہی دورِ حکومت میں فرائڈے ٹائمز کے ایڈیٹر نجم سیٹھی کو گرفتار کر کے ان کے خلاف نقصِ امن کی فردِ جرم عائد کی گئی۔ ایک ماہ تک حراست میں رہنے کے بعد پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے ان کے خلاف مقدمات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انھیں رہا کر دیا تھا۔
2014 میں جب جیو نیوز کے صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا تو جیو ٹی وی چینل نے آئی ایس آئی کے سربراہ کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ اس وقت بھی اس الزام لگانے کو قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھتے ہوئے حامد میر کے بھائی عامر میر اور جیو نیوز پر بھی مقدمہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے پیمرا نے جیو کا لائسنس 15 روز کے لیے منسوخ کرتے ہوئے چینل پر ایک کروڑ کا جرمانہ بھی عائد کیا۔
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے غیر ملکی صحافی بھی ہیں جن کی صحافت نے وقتاًفوقتاً پاکستان کو ‘خطرے’ میں ڈال دیا۔ پاکستانی صحافیوں کو تو نقصِ امن یا بغاوت کے مقدمات سے خوف دلایا جاتا ہے مگر غیر ملکی صحافیوں کو ایسی صورت میں ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔
صحافیوں کا ردعمل
گزشتہ سال بھی 2021 کی طرح صحافیوں کے لئے مشکل ترین سال ثابت ہوا۔ پاکستان با الخصوص سندھ سمیت پوری دنیا میں صحافیوں کو قتل کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جیلوں میں قید کیا گیا، ہراساں کر کے دھمکایا گیا، مگر طاقتور سے طاقتور ترین طاقتوں کے آگے صحافی نہ جھکے نہ بکے اور نہ ہی قلم کیمرا کو بند رکھا۔ پاکستان ہو یا ایران، افغانستان ہو یا بھارت، یوکرین ہو یا امریکا، اسرائیل ہو یا فلسطین یا کشمیر، ہر جگہ صحافیوں کے لئے کسی مقتل گاہ سے کم نہیں ہے