پاکستان میں کم عمری کی شادیاں، وجوہات اور اُن کے نقصانات

شکیلہ پروین
پنجاب یونیورسٹی لاہور

پاکستان نے 1990ء میں بچوں کے حقوق کے عالمی کنونشن پر دستخط کیے تھے، اور ان کے حقوق کے تحفظ اور کم عمری کی شادی کے خاتمے کا عہد رکھتا ہے لیکن ملک کے کئی حصوں میں آج بھی کم عمری کی شادی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کم عمر بچیوں کی شادی ایک معاشرتی المیہ اور انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بچوں کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے جو والدین اپنی ہی اولاد پر اپنے ہاتھوں کرتے ہیں۔ بچوں کےلیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق کم عمربچوں کی شادی کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں چھٹے نمبرپر ہے، اور ایک عالمی تنظیم کے مطابق پاکستان میں 21 فیصد لڑکیوں کی اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہی شادی ہوجاتی ہے اور 13 فیصد اپنی پندرہویں سالگرہ سسرال میں مناتی ہیں۔
پاکستان میں کم عمربچیوں کی شادی کی وجہ
پاکستانی معاشرے میں لڑکیوں کو بوجھ سمجھنے کا رحجان عام ہے۔ والدین یہ بوجھ جلد سے جلد اپنے سر سے اتار دینا چاہتے ہیں۔ کہیں یہ کام غربت کے ہاتھوں، تو کہیں مذہب کے نام پر تو کہیں رسم و رواج کی زنجیر میں ان معصوم بچیوں کو جکڑ کر کیا جاتا ہے۔ شادی کے بعد ان بچیوں پر کیا گزرتی ہے، اس سے دونوں خاندانوں کو کئی سروکار نہیں ہوتا۔ کم عمری کی شادی اور اوائلِ بلوغت میں ماں بننا بھی ایک عام سی بات تصور کی جاتی ہے۔
کم عمری میں شادی کے بعد کےمسائل
کم عمر میں ہی ایک بچی کی شادی کے بعد گھر سے لے کر ماں بننے تک تمام ذمہ داریاں ڈال دی جاتی ہیں ۔ پہلا بچہ سال بھر میں ہی گود میں آجاتا ہے اور پھر یہ سلسلہ رکتا نہیں ۔ہر سال اس بچی کی گود بھردی جاتی ہے اور جب وہ اٹھارہ سال کی ہوئی تو 4 بچوں کی ماں بن چکی ہوتی ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی صحت بھی گررتی جاتی ہے ۔جسم میں خون کی کمی کا بھی سامنا ہوتا ہے ۔ ہیموگلوبین بہت کم ہوجاتا ہے اور یہ چیز ہر بار اسے موت کے منہ میں پہنچادیتی
لیکن پرواہ کسی کو نہیں … لیکن ان سب پریشانیوں سے بڑا عذاب شوہر کا درشت رویہ ہوتاہے ۔ وہ بات بات پر شک کرتا ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ عمر میں فرق بھی ہوتا ہے ،شوہر کو ہر لمحہ لگتا کہ یہ مجھ سے بہت چھوٹی ہے، مجھے چھوڑ کر چلی جائے گی۔ اور پھر یہاں سے ہی آغاز ہوتا ہے ایک ناکام شادی کا اور پھر ایک ہی نہیں کئی زندگیاں اور پھر کئی نسلیں برباد ہو جاتی ہیں

Scroll to Top