کنج آبگیں

شیباحنیف مرزا

ماشاءاللہ!رنگ تو بہت گہرا آیا ہے!۔ زنیرہ نے اس کے حنائی ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے شرارتاً کہا۔وہ روایتی دلہن تو نہ بنی تھی مگر آج بھابھی نےاس کے ہاتھوں پہ مہندی لگوا دی اور جوڑوں میں سے سب سے اچھا جوڑا نکال کر اسے دیا۔جبھی تو سلطانہ کہنے لگی:”سچ ہے بھئی دلہنیا تو بڑی مقدر والی ہے جو اتنی چاہنے والی بھاوج ملی ہے وگرنہ تو آج کل کی بہو بیٹیوں کے مزاج ہی نہیں ملتے۔یہ جوڑا جو ابھی سدرہ نے پہنا ہوا ہے ناں۔فاخرہ نے پورے پندرہ ہزار میں خریدا ہے”۔آپا سلطانہ نے اپنی بہن کی دریا دلی کے قصے سنائے۔ سدرہ کی شادی کروانے کا کریڈت بھی آپا کو ہی جاتا تھا۔کچھ ہی دیر کے بعد دلہا راجہ آئے اور بغیر بینڈ باجوں کے دلہنیا کو بیاہ کر لے گئے۔رخصتی کے وقت اس کے ساتھ دھاڑیں مار مار کر رونے والوں میں اس کی دو بیٹیاں بھی شامل تھیں۔مگر آج پھر سے بھائی کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہی وہ نو آموز بچی بن گئی۔انجانی جگہ انجان لوگ وہ خوف سے تھر تھر کانپ رہی تھی جب کہ برستی بارش اس کی فکروں میں مزید اضافہ کرنے لگی:”بارش کس قدر تیز ہو رہی ہے! خدا جانے ان کا کیا حال ہوگا؟ بینش اور مبراء کا خیال آتے ہی اس کی آنکھیں نم ناک ہوگئیں۔کاش! میں ایک طلاق یافتہ نہ ہوتی تو آج میرے بچے میرے پاس ہوتے۔اسے سابقہ شوہر کا ناروا سلوک,بچیوں کو لے کر بھائی کی دہلیز پہ آنا,بھابھی کا زبردستی دوسری شادی کروانا …سارے منظر ایک فلم کی طرح گھومنے لگے۔وہ اپنی بے بسی پہ ہونٹ کچلتی نم ناک ہو رہی تھی۔
“السلام علیکم!مردانہ آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تو وہ آنسو پونچھتی ہوئی خود میں سمٹ گئی۔اور اس کا جھکا سر اس وقت اٹھا جب اس کی سماعتوں سے یہ الفاظ ٹکرائے: “اتنا شرمانے یا ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔شادی شدہ رہ چکی ہو بلکہ طلاق یافتہ ہو۔” اس نے اسے اس کی اوقات یاد کروانا ضروری سمجھا۔ اماں نے جو کہا تھا: “پہلے دن ہی اسے اس کی اوقات پہ رکھنا پھر ساری زندگی سر نہیں اٹھائے گی وگرنہ یہ بھگوڑی عورتیں کسی کی سگی نہیں ہوتی۔سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ جاتی ہیں۔دیکھ ناں کیسی ظالم ماں ہے اپنے سکھ کے لیے بچے چھوڑ آئی”۔ حمید کے کانوں میں الفاظ سنائی دیئے تو وہ تفتیشی نظر سے دیکھنے لگا۔ہلکے گلابی شفون کا سوٹ,حنائی ہاتھ, جھکا سر, معصوم سا چہرا اس کے دل کو لبھا گیا۔”چھوڑ یار! یہ وقت ہے اماں کی باتیں یاد کرنے کا”۔ اس نے سر جھٹکا۔موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے سدرہ کے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیا دونوں کی نظریں آپس میں ٹکرائیں اور مسکرا دیں۔پلک جھپکتے ہی انہیں ایک دوسرے سے پیار ہوگیا اور اظہار ہونے لگا۔


“یہ اسے نیند آگئی تھی بچوں کے بغیر؟ لبنی نے ساجد کے کان میں سرگوشی کی تو وہ دستر خوان پہ ایک ساتھ بیٹھے نوبیاہتا جوڑے کو دیکھ کر رہ گیا۔”ویسے یار فرش کتنی ہے؟ ساجد بیوی کا ہم خیال ہوا تو وہ کہنے لگی۔بڑی ہمت والی ہے بڑا حوصلہ ہے اس لڑکی کا۔میں تو اپنے گڈو کی ایک دن کی جدائی بھی برداشت نہ کروں اور یہ محترمہ دو بچے چھوڑ کر آگئی……
“لبنی ! آج آلو گوشت بنا لینا! ساسوں اماں نے لبنی کو مخاطب کیا۔
” جی! مدہم سا جواب برآمد ہوا۔
“ماما ! آج میں سکول بیس روپے لے کر جاؤنگا”۔سات سالہ گڈو نے فرمائش کی تو ساجد نے اسے گود میں اٹھا لیا۔”اچھا پہلے یہ بتاؤ! بیس روپے کا کروگے کیا؟باپ نے بیٹے کا منہ چوما۔”ایک کوکو مو لونگا ,ایک سادی سلانٹی وہ اپنی چھوٹی چھوٹی انگلیاں کھول کر بتا رہا تھا اور دس روپے کی لیز”۔ تمام لوگ مسکرا دئیے جب کہ سدرہ بینش اور مبراء کا سوچ کر افسردہ ہوگئی اس کا دل درد سے بھر اٹھا,آنکھیں نم ناک ہوگئیں اور وہ بے ساختہ منہ چھپا کر رو دی جب کہ خاموش سسکیوں پہ قابو نہ پاتے ہوئے وہ دسترخوان چھوڑ کر کمرے کی جانب بھاگنا چاہتی تھی مگر حمید نے مضبوطی سے اس کی کلائی تھامی اور اسے وہیں بیٹھنے رہنے کا حکم دیا۔
“چاچی کیوں رو رہی ہیں؟گڈو حیران ہوا۔
“یہ ہے ہی منحوس عورت! جبھی تو پہلے خاوند کے ساتھ نہ رہ سکی۔یہ گھر بسانے والی عورت نہیں ہے۔جو دو بچے چھوڑ کر آئی ہے وہ دس بچے بھی چھوڑ کر بھاگ جائے گی۔یہ کھاؤ یار ہے اس کی لگامیں کس کر رکھنا! اسے بالکل بھی ڈھیل دینے کی ضرورت نہیں ہے”۔ اماں کے الفاظ پھر سے گونجے اور وہ لب بھینچ کر رہ گیا۔”چلو آؤ تمہیں آج باہر کی سیر کروا کر لاؤں!حمید نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تم گھر کی صفائی کر لو! یہ برتن سمیٹ لو پھر چلتے ہیں باہر”۔
“جی! وہ سر جھکائے بولی
“واہ بیٹا واہ پاس بیٹھی بوڑھی ماں نظر نہ آئی تمہیں اور کل کی بیاہی عورت کو لے کر چل دئیے”۔ اماں نے برملا غصے کا اظہار کیا۔
” اماں! میں اب بچہ نہیں رہا شادی شدہ ہوں دو بچوں کا باپ ہوں مجھے میری بیوی بچوں کے حقوق پورے کرنے دیں!
“کیا …کیا… کون …سی بیوی اور کون سے بچے؟اماں سمیت محفل کے تمام افراد ششدر ہوئے
“سدرہ میری بیوی ہے اور سدرہ کے بچے میرے بچے ہیں۔میں آج ہی بچوں کو سدرہ کے پاس لے آؤنگا!۔ حمید کے الفاظ پر تمام افراد کو سانپ سونگھ گیا جب کہ وہ آہستہ روی سے چلتا ہوا ماں کے گھٹنے سے جا لگا۔”اماں!آج مجھے پتہ چلا کہ اللہ نے مجھے ماریہ سےاولاد کیوں نہیں دی تھی؟ کیوں وہ وقت سے پہلے ہی دنیا چھوڑ کر چلی گئی؟ کیونکہ اللہ چاہتا ہے میں سدرہ کے بچوں کا باپ بنوں۔ سدرہ کا سہارا بنوں۔مجھے یاد ہے ماریہ اور میں کیسے اولاد کے حصول کے لیے در در بھٹکتے تھے۔اور ماریہ کی بیماری………حمید نے آنسو چھپانے کے لیے آنکھیں بند کر لیں اب اللہ مجھے اولاد کی نعمت دے رہا ہے تو میں کیوں انکار کروں؟کیوں نہ اس نعمت سے فیض یاب ہوں۔خود چل کر میرے گھر رحمت آئے اور میں اسے ٹھکرا دوں؟میں ایسا بے وقوف ہر گز نہیں ہوں اور ہاں اگر کسی کو میرے اس فیصلے سے اعتراض ہے تو میں سدرہ اور اپنی بچیوں کو لے کر الگ گھر شفٹ ہو جاؤنگا”۔ اماں سمیت تمام افراد دانتوں تلے انگلی داب کے بیٹھ گئے۔”جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی کے مصداق حمید کے فیصلے کے آگے کوئی سر نہ اٹھا سکا۔
” پتہ نہیں میں نے کون سی نیکی کی تھی کہ مجھے آپ مل گئے”۔ سدرہ حمید کے پیروں پہ جھکی۔” تمہاری جگہ میرے قدموں میں نہیں ہے بیگم بلکہ میرے دل میں ہے اور میں تم سے وعدہ کرتا ہوں میں تمہارا اور اپنی بیٹیوں کا محافظ بنوں گا”۔
کمرے میں چین کی نیند سوتی بینش اور مبراء کو دیکھ کر حمید بولا تو سدرہ نے پرسکوں ہوتے ہوئے اپنا سر اپنے محبوب شوہر کے سینے سے ٹکا دیا کہ یہیں اس کی کنج آبگیں ہیں۔

Scroll to Top