ڈاکٹر طارق عزیز
پاکستان کے نامور مصنف، محقق، شاعر، استاد، ڈراما نگار اور پروڈیوسر ہیں۔ ڈاکٹر طارق عزیز دونوں ٹانگوں سے معذوری کے باوجود بہت سے شعبہ ہائے زندگی میں بہت معتبر مقام رکھتے ہیں۔ پیدائش کے بعد پولیو کا شکار ہوئے اور موت کرونا سے ہوئی۔ طارق عزیز 10 جنوری 1954ء کو جہلم میں پیدا ہوئے۔ پرائمری کا امتحان ایم سی پرائمری سکول مشین محلہ نمبر 3 جہلم سے اور میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول جہلم سے پاس کیا۔ مصنف، محقق، نقاد، شاعر، ڈرامہ نگار اور استاد ڈاکٹر طارق عزیز 20 مئی کو کرونا سے شکست کھا گئے۔ آپ نے ٹانگوں سے معذور ہونے کے باوجود ہمت اور حوصلے سے ایک فعال اور پُر وقار زندگی گزاری۔
ڈاکٹر طارق عزیز علمی اور تحقیقی میدان میں معتبر حوالے سے جانے جاتے تھے۔ 1978 میں اردو زبان میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ دونوں ٹانگوں سے محروم ڈاکٹر طارق عزیز نے اپنے معذوری کو کبھی بھی کامیابی کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔
انہوں نے علم و ادب کی دنیا میں ایک الگ پہچان بنائی۔ پاکستان ٹیلی ویژن کو متعدد ڈرامے دیے۔ ان کے ڈرامے حقیقی زندگی کی عکاسی کرتے تھے۔ بسیرا، گیسٹ ہاؤس، فیصلہ اور نوبہار جیسے ڈرامے آج بھی زبان زدعام ہیں
ڈاکٹر طارق عزیز کا تعلق لاہور سے ہے۔ وہ اگرچہ دونوں ٹانگوں سے معذور ہیں لیکن زندگی کے علمی اور تخلیقی میدان میں وہ ایک بہت معتبر حوالے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے 1978ء میں اردو زبان میں ایم اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی، لاہور سے حاصل کی۔ اور یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن پائی ۔
ایم اے کے بعد وہ شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئے اور بہت سے کالجز میں مدرس کی خدمات انجام دیں۔ 1990ء سے مئی 2003ء تک فارمین کرسچین کالج، لاہور میں استاد رہے۔ اس کے علاوہ گورنمنٹ کالج آف سائنس، لاہور میں 2008ء سے 2013ء تک وائس پرنسپل کے عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے 1982ء سے فروری 1985ء تک اسٹنٹ ڈائریکٹر ایجوکیشن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر طارق عزیز اس وقت پنجاب یونیورسٹی، لاہور میں ابلاغیات کے پروفیسر ہیں ۔
ٹیلی وژن ڈرامے
• بسیرا
• گیسٹ ہاؤس
• اکھڑ
• فیصلہ
• نوبہار
• آنکھ اوجھل
• زہر باد
• علی بابا
• آدھے چہرے
• ڈوپٹہ
• بدلتے راستے
• کوئی تو ہو
• موسم موسم پرندے* انہوں نے پی ٹی وی کے علاوہ بھی دیگر کئی چینلز کے لیے بہت سے ڈرامے تحریر کیے۔ نیز انہوں نے بہت سی دستاویزی فلموں اور ڈراما سیریل کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتیں منوائیں۔
نمونہِ کلام
تو نے جو بھی درد دیا ہے
میں نے کب انکار کیا ہے
میں نے تم کو کیا سمجھا تھا
میں نے تم کو کیا پایا ہے
تصنیف و تالیف
- تلخیص خطباتِ اقبال
- اقبال شناسی اور ایکو
- کارل مارکس اور اس کی تعلیمات
- اُردو رسم الخط اور ٹائپ
- نئی ادبی جہتیں
- جلا وطن (شاعری)
- بسیرا (ڈراما)
197ء میں ایم اے (اردو) اور 1986ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔ پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان تھا ’’اردو رسم الخط اور ٹائپ‘‘ ابتدا میں آپ ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن (کالجز) میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر خدمات انجام دیتے رہے۔ ان دنوں آپ نے موٹر سائیکل خریدی اور ایک ڈرائیور رکھ لیا۔ یہاں ان سے میری متعدد ملاقاتیں رہیں۔ ان کے والد عبدالعزیز ریلوے میں ملازم تھے۔ ان کی جہلم سے لاہور ٹرانسفر ہوئی تو شازو لیبارٹریز کے سامنے ریلوے کالونی میں کوارٹر الاٹ ہوا۔ اس کوارٹر میں بھی ان سے ملاقاتیں جاری رہیں۔ وہ شوقیہ فوٹو گرافر بھی تھے۔ گھر ہی میں سٹوڈیو بنایا ہوا تھا۔ ۔
1985ء میں طارق عزیز نے گورنمنٹ ایف سی کالج میں اردو کے پروفیسر اور 2003ء تک اسی کالج میں صدر شعبہ اردو خدمات انجام دیں۔ 2003ء میں گورنمنٹ سائنس کالج وحدت روڈ ٹرانسفر ہو گئی۔ 2008ء میں پرنسپل کے عہدے تک پہنچے۔
ڈاکٹر طارق عزیز نے پی ٹی وی اور دیگر چینلز کے لیے ڈرامے لکھے۔ گیسٹ ہاؤس، آنکھ اوجھل، علی بابا، ان کے مشہور ڈرامے ہیں۔ بعض ڈرامے ڈائریکٹ بھی کیے۔ یوم اقبال، یوم مزدور اور یوم دفاع کے سلسلے میں خصوصی کھیل بھی لکھے۔ اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی لکھتے تھے۔ ’’ترٹھ‘‘ ان کا طویل پنجابی ڈرامہ ہے۔ ڈاکٹر طارق عزیز نے سماجی خدمات میں بھی حصہ لیا۔ متعدد سماجی اور رفاہی تنظیموں کے عہدے دار تھے۔ انھوں نے کار خریدی تھی جو سپیشل افراد کے لیے خصوصی طور پر تیار کی جاتی ہے۔ اس کا سارا سسٹم ہاتھ میں ہوتا ہے۔
’’گونگے کا خواب‘‘ کا دیباچہ ڈاکٹر طارق عزیز نے لکھا۔ ٹانگوں سے معذوری کے حوالے سے جب میں نے ان سے پوچھا تھاتو کہنے لگے۔ ’’اس داستان میں کیا رکھا ہے۔ بس ایک وقت تھا جو گزر گیا۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو اسی حالت میں پایا۔ اسی میں پروان چڑھا۔ تکالیف تو بہرحال پیش آئیں لیکن میں نے ہمیشہ اس انداز میں سوچا ہے کہ ان تکالیف کی جو نوعیت رہی ہے وہ کسی کو بھی پیش آ سکتی ہیں۔ اس لیے دکھ کبھی نہیں ہوا۔‘‘
ڈاکٹر طارق عزیز کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔ دونوں لندن میں مقیم ہیں۔ ان کی اہلیہ بھی پروفیسر ہیں جو اب ریٹائر ہو چکی ہیں۔ سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر طارق عزیز لیڈز یونیورسٹی سے وابستہ ہو گئے۔ یہاں وہ چیئرمین شعبہ اردو اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس رہے۔ آخر میں ان کے دو شعر:۔؎
تو نے جو بھی درد دیا ہے
میں نے کب انکار کیا ہے
میں نے تم کو کیا سمجھا تھا
میں نے تم کو کیا پایا ہے
ڈاکٹر طارق عزیز کا تعلق لاہور سے تھا۔ وہ دونوں ٹانگوں سے معذور تھے لیکن زندگی کے علمی اور تخلیقی میدان میں وہ ایک بہت معتبر حوالے کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انہوں نے 1978ء میں اردو زبان میں ایم اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی، لاہور سے حاصل کی اور یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ایم اے کے بعد وہ شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئے اور بہت سے کالجوں میں مدرس کی خدمات انجام دیں۔ 1990ء سے مئی 2003ء تک فارمین کرسچین کالج لاہور میں استاد رہے۔ اس کے علاوہ گورنمنٹ کالج آف سائنس لاہور میں 2008ء سے 2013ء تک وائس پرنسپل کے عہدے پر فائز رہے۔ڈاکٹر طارق عزیز اس وقت پنجاب یونیورسٹی میں ابلاغیات کے پروفیسر تھے۔ان کے لکھے جانے والے مشہور ڈراموں میں بسیرا، گیسٹ ہاؤس، اکھڑ، فیصلہ، نوبہار، آنکھ اوجھل، زہر باد،علی بابا، آدھے چہرے، دوپٹہ، بدلتے راستے،کوئی تو ہو شامل ہیں۔
ڈاکٹرطارق عزیز نے کئی کتابیں بھی لکھیں، لیکن موت سے چند سال قبل انہوں نے ڈرامہ لکھنا چھوڑ دیا تھا تین ماہ قبل راقم الحروف سے ملاقات میں انہوں نے بتایا تھا کہ اب ڈرامہ کا وہ معیار نہیں رہا اسی لیے پرانے ڈرامہ رائٹرز نے ڈرامہ لکھنا چھوڑ دیا ہے۔وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے اور ان کی شاعری میں حقیقت پسندی اور انوکھا پن تھا شاعروں سے محبت کرتے تھے اور کبھی کبھار مشاعروں میں بھی جاتے تھے۔ ڈاکٹر طارق عزیز ایک تخلیقی انسان تھے اور اپنی معذوری کو کبھی انہوں نے رکاوٹ نہیں سمجھا، بلکہ اپنا کام جاری رکھا اور نہ کبھی احساس کمتری کا شکار ہوئے اپنے لکھنے لکھانے کے کاموں میں ہمیشہ مصروف رہتے۔