از قلم: مقدس نعیم

اللہ نے انسان کو کمزور پیدا کیا ہے۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے اشرف المخلوقات ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔

مجھے کبھی سمجھ نہیں آتی تھی اس بات کی کہ کمزور ہے تو تمام مخلوقات سے بہتر کیوں ؟

کبھی کبھی ہم بہت بے بس ہوتے ہیں۔۔۔ مجبور، کمزور، ظالم ، مظلوم ، دکھی،

سمجھ نہیں آتی کہ کیا کریں۔ حالات اتنے مشکل نہیں ہوتے لیکن ہم بہت کمزور پڑ جاتے ہیں۔ الفاظ ختم ہو جاتے ہیں۔ حل نہیں ملتے۔

اور دوسروں کے لیے، دوسروں کے سامنے ہمیں چہرے پر مسکراہٹ سجانی پڑتی ہے۔ خود کو نارمل رکھنا پڑتا یے۔

ہم سب کہ سامنے ہنس سکتے ہیں تو رونے پر مزاق کیوں اڑایا جاتا ہے۔؟

کبھی کبھار ذہن بلکل خالی ہوتا ہے۔
الفاظ ملتے ہی نہیں۔
اور خاموش رہ کر روح کو تکلیف ہوتی ہے۔

جسمانی تکلیف برداشت کر لیتے ہیں ، ذہن منتشر ہو سکون نہیں پڑتا۔

بے جا خیالات دماغ کو سُن کر دیتے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود اسکی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آتی کیونکہ اس کی روح خالی ہوتی ہے۔

اللہ کسی بھی انسان پر اسکی طاقت سے بڑھ کر اس پر بوجھ نہیں ڈالتا۔ وہ بوجھ جو ہمیں کسی مشکل یا پریشانیاں میں محسوس ہوتا ہے۔ ہم کٹھن ادوار سے گزر کر بھی نہیں مرتے۔ روح سلامت رہتی ہے تو جسم بھی تحریک میں ہوتا ہے۔ لیکن وہ تمام پریشانیاں ، مشکلات جن سے ہم گزرے ، اگر اس میں ہم اپنی روح کو مناسب غذا نہ دیں تو جسم اپنا اصل کھو دیتا ہے۔ سستی، کاہلی، ڈیپریشن، منفی خیالات، ہمارے جسم و روح کو بوسیدہ بناتے چلے جاتے ہیں۔

نماز ، قرآن کے باوجود کچھ ایسا غطل ہم سے ہو رہا ہوتا ہے جو ممکن ہے ہمارے لیے بہت معمولی ہو اور اسی وجہ سے ہماری توجہ اس پر نہیں جاتی۔ لیکن اسی معمولی عمل کی وجہ سے ہماری زندگی متحرک نہیں ہو پاتی۔

کیونکہ ہم نے ہمارے ذہن میں ان مشکل ادوار میں یہ بات بٹھا لی تھی کہ کبھی کچھ ٹھیک نہیں ہو سکتا، کبھی کچھ ٹھیک نہیں ہو گا۔ ہم ایک ایک انسان سے یہ بات کہتے جاتے ہیں اور تنہائی میں خود سے دہراتے رہتے ہیں۔ اور ہمارا ذہن اس بات کو قبول کر لیتا ہے کہ کہ واقعی کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو گا۔ ایک لمبے عرصے سے ہم اسے بتا رہے تھے کہ سب خراب ہے۔ اور رہے گا۔ اس سوچ کو ہم بدلنا نہیں چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی معجزہ ہو اور سب بس چٹکی بجاتے بدل جائے۔ یہ دھیان نہیں دیتے کہ دماغ کو دی گئی غلط ٹرینینگ کو اصلاح کی ضرورت ہے۔

(نامکمل)

Scroll to Top