چودہ اگست

از۔۔ فاطمہ سرور۔۔

27 رمضان المبارک 14 اگست 1947 ہماری تاریخ کا ایک یادگار دن ہے۔ جسے کوئی بھی ذی شعور شخص جھٹلا نہیں سکتا۔ اس دن ہمارے اسلاف کی قربانیاں رنگ لائی اور وہ ایک آزاد مملکت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اقبال کے خواب کو قائد نے عملی جامہ پہنایا اور ایک آزاد ریاست وجود میں آئی جس کا نام “پاکستان” رکھا گیا۔ پاکستان پاک لوگوں کی سر زمیں ہے اور پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ اللہ کیونکہ اس کی بنیاد توحید پر رکھی گئی۔ لاکھوں لوگوں نے اپنی زندگیوں کا نظرانہ پیش کر کے اس وطن کو آزاد کیا۔ آزادی مفت میں نہیں ملی خون پسینہ ایک کر کے غلامی کا غلاف اترا۔ اس پاک دھرتی کے حصول کے لیے کتنے ہی مسلمانوں نے جانیں قربان کیں۔ ماؤں کے سامنے بچوں کو نظرِ آتش کیا گیا، کتنی ہی بیٹیاں اپنی عصمتیں بچانے کے لیے نہروں اور کنووں میں کھودی. لاکھوں بچوں نے یتیمی کا تاج پہن کر اس پاک سرزمین کی قیمت ادا کی۔ ہزاروں پھول جھلس گئے بھری بہار میں خزاں کا سا سماں تھا۔ باغات ویران ہوگئے مسلمان بے گھر ہو کر در بدر کی ٹھوکریں کھانے لگے تھے۔

ملی نہیں ھے ارضِ پاک ہمیں تحفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا

جشنِ آزادی مبارک یہ کہنا بہت آسان ہے مگر آزادی حاصل کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے جو مشکلیں جھیلیں ہیں ہم اس کا ایک فیصد حق بھی ادا نہیں کر سکتے۔ بلکہ ہم نے حق ادا ہی نہیں کیا کیونکہ ہمیں تو پلیٹ میں پیش کر کے ملی ہے یہ سرزمین۔ اقبال کے شاہین دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اپنے ہی وطن کو جبکہ اس کی بنیاد مذہب اسلام پر رکھی گئی۔ جس میں امانت میں خیانت، جھوٹ، اقرباء پروری، اور رہزنی جیسے کام ممنعوع ہیں۔

ٹیپو سلطان نے کہا تھا شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ مگر آج ایک دفعہ پھر سارے شیر کیدڑ بنے پھر رہے ہیں۔ نام کی آزادی منا رہے ہیں مگر آج بھی غلامی کی زنجیروں میں جھکڑے ہوئے ہیں۔ دوسروں کے محل میں غلامی قبول ہے مگر اپنی جھونپڑی میں حکمرانی کرنا معیوب لگتا ہے۔

ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
دن آجاتا ہے آزادی کا، آزادی نہیں آتی

قائداعظم نے فرمایا تھا کے دنیا میں ایسی کوئی طاقت نہیں جو پاکستان کا وجود ختم کر سکے۔

تم ہو ایک زندۀ جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو کے ڈھل جاؤ گے

صحیح کہا تھا انہوں نے اس دھرتی کے نوجوان شیروں سے کم نہیں ہیں مگر ان کے ضمیر سوئے ہوئے ہیں اسے جگانے کے لیے ایک اوراقبال چاہیے۔ تب ہی یہ ملک مکمل آزاد ہو کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔

اَلْکٰاسِبُ حَبِیْبُ اللہ
محنتی اللہ کا دوست ہوتا ہے۔

محنت میں عظمت ہے۔ اس ملک کو دوبارہ اس مقام پر لانے کے لیے ہمیں بہت محنت کرنی ہوگی تب ہی ہم صحیح معنوں میں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا حق ادا کر سکیں گے۔ کیونکہ ایک مومن اپنا خون پسینہ ایک کر دیتا ہے اپنے قوم کے روشن مستقبل کے لیے اور دنیا کی کوئی طاقت اسے زیر نہیں کر سکتی۔

ہیں نیک و پارسا لوگ شمع روشن کے مانند
رُواں رُواں جلاتے ہیں فقط چراغاں کے لیے

وطن گھر کی طرح ہوتا ہے ہمارا رکھوالا اور جائے پناہ۔ یہ رب کی عطا ہے کے ہم ایک آزاد مملکت کے باسی ہیں اور اپنے عقائد دین کو آزادی سے ادا کر رہے ہیں۔ دعا ہے کہ امتِ محمدﷺ کبھی بھی حق سے منہ نہ موڑے، ہر معاذ پر ثابت قدم رہے۔ وہ رب سب کا حامی و ناصر ہو آمین۔

توحید کا نعرہ ہے، امید کا پرچم ہے
اپنی میری دھرتی، اپنا میرا موسم ہے
اس خاک پہ میں قربان، اس کی ہی دیوانی ہوں
!!!میں پاکستانی ہوں
!!!میں پاکستانی ہوں

Scroll to Top