محمد احسان ثانی (لاہور)
Mamta by Ehsan Saani
Mamta by Ehsan Saani from Lahore.
لاہورسے واپس آتے ہوئے سڑک پر دور سے ہی ایک خواجہ سرا کھڑا نظر آ رہا تھا جو ہر گزرنے والی نجی سواری کو ہاتھ دے رہا تھا تاکہ کوئی اسے لفٹ دے دے اور وہ لاہور سے قصور کی طرف سفر کر سکے۔میں نے قریب جاکر بائیک کی بریک لگائی تو خواجہ سرا پوچھے بغیر ہی گانا گاتے ہوئے بائیک پر بیٹھ گیا۔
مینوں وی لئے چل نال وے۔۔۔
باؤ سوہنی گَڈی والیا۔۔۔
میں نے پوچھا او بھائی کدھر جانا ہے ؟ خواجہ سرا فورًا بولا میں تینوں بھائی لگدا آں ؟ میرا ناں تے نسیم گُل عرف مہک اے۔۔
اور ساتھ ہی پھر گنگنانے لگا ۔۔
جے میں ہوندی ڈھولنا ۔۔۔ڈھولنا
سونے دی تویتڑی۔۔۔
میں تھوڑا پچھتانے لگ گیا کہ یہ میں نے کس مصیبت کو ساتھ بیٹھا لیا ہے ۔میں نے اسے چُپ کروانے کے لیے اس سے سوال پوچھنا شروع کر دیے جس کے جوابات وہ بڑی تیزی سے دے کر پھر گنگنانے لگ جاتا۔ میں نے پوچھا کدھر جانا ہے کہاں سے آئے ہو ؟
مہک نے جواب دیا جہاں سے آیا ہوں وہیں جانا ہے اور کہاں جانا ہے!!!!
میں نے کہا میں سمجھا نہیں! ہنس کر بولا میں قصوروں آیا آں وے۔۔۔ تے قصور ای جانا اے۔۔
میں نے کافی سارے سوال اکٹھے داغ دیے تاکہ وہ گنگنانا بند کر دے اور مجھے بھی بولنا نہ پڑے۔
اس نے بتایا کہ وہ ضلع سیالکوٹ کا رہائشی تھا۔گھر والوں نے اس کا نام ظفر رکھا تھا ۔وہ گاؤں کے سکول میں پانچویں کلاس کا طالب علم تھا جب اسے پتہ چلا کہ وہ عام بچوں سے ہٹ کر کچھ ایسی حرکتیں کرتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف اس کے کلاس فیلو بلکہ اس کے اساتذہ بھی اس کا مذاق اڑاتے اور ہنستے ہیں۔اس نے بتایا کہ جب وہ چھٹی جماعت میں پہنچا تو اس کے گاؤں میں کچھ خواجہ سرا رہتے تھے۔ انہوں نے مجھے دیکھا تو وہ مجھ سے بہت پیار کرنے لگے اور مجھے اپنے ساتھ ناچنے گانے کے لیے کبھی کبھار لے جاتے ۔میں بھی گھر سے سکول کے لیے آتا لیکن سکول پہنچنے کے بجائے میں چوری چوری خواجہ سراؤں کے ساتھ ناچنے کےلیے چلا جاتا ۔مجھے میرے گُرو نے بڑی محنت کے ساتھ ناچنا سکھایا تھا ۔اتنی محنت سے کہ سکول میں استاد بھی مجھے اتنی محنت سے نہیں پڑھاتے تھے۔اور میں اپنے گُرو کی محنت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ایک دن میرے ابا شہر سے واپس آرہے تھےانہوں نے مجھے مین رستے پر اپنے گُرو کے ساتھ ناچتے ہوئے دیکھ لیا۔انہوں نے مجھے وہیں کُھسے کے ساتھ مارنا شروع کر دیا ساتھ میرے گرو کو بھی دو تین گالیاں دی اور مجھے گھر لا کر رسے سے باندھ دیا۔میری ماں نے میرے ابا کی کافی منتیں کر کے مجھے چھڑوا دیا۔میں حسب عادت اکثر گرو سے ملنے اور ڈانس سیکھنے کے لیے جاتا تھا۔مجھے میرے بھائیوں نے دیکھا تو انہوں نے بھی مجھے مار مار کر گھر سے نکال دیا۔میں کچھ دن گرو کے پاس رہا لیکن ماں کی یاد نے مجھے پھر باپ کے گھر جانے پر مجبور کر دیا۔میں ایک رات چپکے چپکے ماں سے ملنے گھر کی دیوار پھلانگ رہا تھا کہ ابا نے مجھے پکڑ لیا اور پھر خوب مارا ۔میری ماں نے مجھے بہت چھڑوایا لیکن ابا نے ماں کو بھی مارنا شروع کر دیا۔صبح ہوئی تو میری ماں مجھے لے کر بابا بلھے شاہ کے مزار پر قصور لے آئی اور روتی آنکھوں پٹھے کلیجے اور غم جدائی کی چکی میں میں پِستے ہوئے بولی ظفر بیٹے آج سے یہی تیرا گھر ہے تو واپس نہ آنا تیرا ابا تجھے مار دے گا کیونکہ گاؤں کے سب لوگ تیرے ابا کو تیرے طعنے دیتے ہیں۔جب میں نے یہ بات سنی تو میری آنکھوں میں سمندر اتر آیا ۔میں اور میری ماں گلے لگ کر اتنا روئے کہ بابا بلھے شاہ کے مزار کو غسل دیا جاسکتا تھا۔میری ماں نے میرے ہاتھ چومے اور سر کی اوڑھنی کے ایک کونے میں بندھے ہوئے کچھ سکے مجھے تھما دیے ۔اور ٹرین کے وقت کی فکر میں فورًا اسٹیشن کی طرف چل پڑی۔میں سمجھ سکتا تھا کہ آج ماں زمین پر نہیں بلکہ زمین میری ماں کے پیروں پر اپنا سارا وزن ڈال چکی ہے جس وجہ سے ماں کے پیر بوجھل اور چھلنی ہوتے جارہے ہیں۔میں وہیں احاطئہ بلھے شاہ میں کھڑا احاطہ ء محشر کی کسک محسوس کر رہا تھا اور ماں قدم قدم اوجھل ہوتی جارہی تھی ۔بس اس دن سے میں نے ناچنا گانا شروع کر دیا اور ساری کمائی بلھے شاہ کے نام پر لٹانا شروع کر دی ۔وہ بلھے شاہ جس نے بے گھر کو گھر دیا وہ بلھے شاہ جس نے مجھے کسی رات بھوکا نہیں سونے دیا وہ بلھے شاہ جو میری ماں بھی تھا اور باپ بھی۔کچھ سال تک تو ماں ہر عرس پر آتی رہی اور ہم دونوں ملتے رہے لیکن اب بہت سال ہوگئے ہیں ماں مجھے ملنے نہیں آئی شاید۔۔۔۔۔
نسیم گل عرف مہک یعنی ظفر انتہائی افسردگی کی حالت میں تھا وہ سارے گیت بھول چکا تھا وہ کچھ دیر کے لیے پھر ظفر بن چکا تھا ۔میں نے آخری سوال پوچھا کہ جانا کدھر ہے اس نے مجھے کندھے سے پکڑا اور زور سے دبا کر بولا ۔۔۔
جہاں سے آیا تھا وہیں جانا ہے
Mamta by Ehsan Saani
Read more on Apna Magazine
Search Apna Magazine on Google