مشعل فاطمہ
آج کے دور میں مرد و خواتین شانہ بہ شانہ ترقی کی شاہراہ گامزن ہیں۔ خواتین نے ہر فیلڈ میں خود کو منوایا ہے ۔ایک اہم شعبہ طب کا ہے ۔ خواتین کی بڑی تعداد ڈاکٹری کی تعلیم کے لئے بھی کوشاں رہتی ہے اورسخت محنت کے بعداپنی منزل پا بھی لیتی ہے ۔ خواتین کےلئے ملک اور بیرون ملک اعلی تعلیم کے مواقعے اور راستے موجود ہیں۔پاکستان میں مرد ڈاکٹروں کی تعداد زیادہ ہے لیکن اب خواتین بھی ڈاکٹری کے میدان میں موجود ہیں اور پہلے کی نسبت خواتین کی تعداد میں اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ اس سلسلے میں ایک سروے میں یہ انکشاف ہوا کہ پاکستان میں 35فیصد خواتین ڈاکٹر کی ڈگری تو لے لیتی ہیں لیکن ملازمت نہیں کرتیں۔رپورٹ کے مطابق 1لاکھ 35 ہزار میڈیکل گریجویٹس خواتین میں سے 68ہزار خواتین کسی نہ کسی اسپتال یا طبی شعبے وابستہ ہیں جبکہ 35ہزار کسی ملازمت سے وابستہ نہیں ہیں۔ یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ ایک لڑکی جس نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کر لی ہے وہ اکثر تنگ لوگوں کی ذہنیت کا شکار ہو کر عضو معطل بن کر رہ جاتی ہے ۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ لوگ تعلیم یافتہ لڑکیوں سے شادی تو کرنا چاہتے ہیں لیکن ان سے ملازمت نہیں کرواتے،جس کے دبا میں آ کر عموما خواتین ڈاکٹرز گھر بیٹھ کر خاتون خانہ بننے کو ترجیح دیتی ہیں۔ خواتین ڈاکٹرز کا تعلیم کے بعد ملازمت نہ کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ ملکی ترقی میں حصہ نہیں لے پاتیں اور ساتھ ہی خواتین ڈاکٹرز پر حکومت اور والدین کا لگایا گیا لاکھوں روپیہ سود مند ثابت نہیں ہو پاتا، جس سے پاکستان کے شعبہ طب کو اچھا خاصا نقصان ہوتا ہے۔ڈاکٹر بننے کےلئے ایک ایک سیٹ نہایت کی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ اب اگر ڈاکٹر بننے کے بعد اگر وہ کام ہی نہ کیا تو پھر کسی کا حق ہی خراب ہوا۔ شعور ہر طبقے تک پہنچانا نہایت ی ضروری ہے ۔ اس سلسلے میں ہماری مساجد سے اچھا درس دیا جا سکتا ہے جمعہ کے روزنمازیوں کی بڑی تعداد مسجد میں موجود ہوتی ہے ۔ وہاں پر خواتین کے بطور ڈاکٹر ہونے کے متعلق واضح کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت سطح پر متحرک ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔کہ اس صورتحال میں ایسی قانون سازی کی جائے کہ جو اسٹوڈنٹس ڈگری حاصل کرنے کے بعد اس سے ملک و قوم کو مستفید نہ کریں ان پر جرمانہ عائد کیا جائے، انہوں نے مزید کہا کہ یا تو اتنے سنجیدہ پیشے کو اپنایا ہی نہ جائے اور جب اختیار کرلیا جائے تو اس کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں۔