مشعل فاطمہ
اقوام متحدہ نے اعتراف کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے 2030 تک صنفی مساوات حاصل کرنے کا جو ہدف مقرر کیا گیا تھا، وہ دنیا بھر میں خواتین کے ساتھ صحت، تعلیم، روزگار اور اقتدار کے شعبوں میں گہرائی تک پیوست تفریق کی وجہ سے حاصل کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ “خواتین اور لڑکیوں کو اختیارات دینے کے معاملے میں دنیا ناکام رہی ہے۔”
‘دی جینڈر سنیپ شاٹ 2023 ‘ نام سے رپورٹ اقوام متحدہ کی نائب سکریٹری جنرل ماریا فرانسسکا اسپاٹولیزانو نے جاری کی ۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ جنگ زدہ اور غریب علاقوں میں رہنے والی خواتین کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران جو ترقی ہوئی تھی اب وہ بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔اقوام متحدہ نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے 17 شعبوں میں اہداف حاصل کرنے کی بات کہی تھی۔ غربت کا خاتمہ سے لے کر تعلیم اور ماحولیاتی تبدیلی کے شعبوں میں طے کیے گئے ان اہداف کو سن 2030 تک حاصل کرنا تھا۔ رپورٹ میں انہیں اہداف میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق تصویر بہت مایوس کن ہے اور اس کا سبب حکومتوں کی جانب سے ان کا ‘سردمہری کا رویہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آج بھی دنیا میں ہر دس میں سے ایک خاتون یعنی تقریباً10.3 فیصد خواتین 2.15 ڈالر یومیہ پرزندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو سن 2030 تک 8 فیصد خواتین اسی سطح پر آجائیں گی۔ ان میں سب سے زیادہ خواتین سب صحارا افریقہ میں رہتی ہیں۔ آج بھی کروڑوں لڑکیاں ہیں جنہوں نے اسکول کا کبھی منہ نہیں دیکھا۔ ان میں سے بیشتر تصادم والے علاقوں میں رہتی ہیں۔ اقوام متحدہ کا ہدف ہے کہ ہر بچے کو کم از کم دسویں درجے تک تعلیم دستیاب ہو لیکن طالبان نے افغانستان میں لڑکیوں کی ابتدائی تعلیم کے آگے پڑھنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ رپورٹ کے مطابق “سن 2023 تک پوری دنیا سے 12.9 کروڑ لڑکیاں اسکولوں سے باہر ہوسکتی ہیں اور اگر ترقی کی یہی رفتار برقرار رہی تو سن 2030 تک گیارہ کروڑ لڑکیاں ایسی ہوں گی جو اسکول نہیں جا رہی ہوں گی۔”
022 میں 25 سے 54 برس کے عمر کی صرف 61.4 فیصد خواتین کو ہی ملازمت حاصل تھی جب کہ مردوں کے معاملے میں یہ تعداد 90.6فیصد تھی۔ اس کے ساتھ ہی خواتین کو مردوں کے مقابلے کم تنخواہ کا درد بھی جھیلنا پڑرہا ہے۔
2019 میں مردوں کو ملنے والے ایک ڈالر کے مقابلے میں خواتین کو صرف 51 سینٹس یعنی تقریباً نصف ہی مل رہا تھا۔” مستقبل میں روزگار کے شعبوں مثلاً سائنس، ٹیکنالوجی، اختراعات کے متعلق رپورٹ کہتی ہے، “مسلسل موجود رکاوٹوں کی وجہ سے خواتین کا کردار محدود ہے، جو مصنوعی ذہانت (اے آئی) جیسے شعبوں میں نمایاں دکھائی دے رہا ہے۔” 2022 میں جن محققین نے اپنی دریافتوں کے لیے پیٹنٹ کی درخواستیں دی ہیں ان میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے پانچ گنا کم تھی۔ سن 2020 میں دنیا بھر میں تحقیقات کے شعبوں میں ہر تین مردوں میں صرف ایک خاتون تھی۔ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور ریاضی (ایس ٹی ای ایم) شعبوں میں ملازمتوں میں تو ہر پانچ میں صرف ایک ہی خاتون تھی۔