ایک محبت اور

                                                             شیباحنیف مرزا
میں آج بھی شدید جھنجھلاہٹ کا شکار تھا اور وہ آج بھی ہنستی مسکراتی میرے سامنے آگئی تھی نجانے کیوں وہ میرا ضبط آزماتی تھی اور میں اس وقت سے ڈرتا تھا جب میرے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوگا تو اس دن نجانے کیا ہوگااور میں خدا سے اس دن کے نہ آنے کی دعائیں کرتا کہ(یا باری تعالی مجھے حوصلہ دے,ہمت دے کہ میں ضبط کا دامن نہ چھوڑوں جھبی تو میں اس سے دور,دور رہنے کی کوشش کرتا اور جہاں وہ ہوتی وہاں سے چپکے سے نکل پڑتا جب کہ اسے دیکھ کر میرے ہاتھوں کی مٹھیاں اور دماغ کی راگیں تن جاتیں اور شدید غصے پہ  قابو پاتے ہوئے میں وہاں سے نکل پڑتا۔)
*میرے دل کی ساری خوشی بن کے رہنا
ضروری ہو تم اور ضروری ہی رہنا
تمہیں میں نے چاہا محبت سے بڑھ کر 
محبت ہو میری محبت ہی رہنا 
میرے دل میں رہتے ہو تم ہو مجھ میں سمائے 
قسم ہے تمہیں تم سما کے ہی رہنا
شازمین عارف
"ارے واہ!آج پھر کرنٹ افیئر میں شازمین نے لکھا ہے ذین العابدین نے کرنٹ افئیر سے نظریں ہٹا کر سامنے کرسی پہ براجمان عبدالرحمن سے کہا۔ "ہاں پڑھ لیا ہے میں نے" عبدالرحمن نے مختصر جواب دیا۔ "ویسے لکھتی اچھا ہے۔" کیا خیال ہے۔ زین العابدین نے کرنٹ افئیر پہ نظریں گاڑتے ہوئے کہا۔"ہاں شاید"۔ عبدالرحمن نے سرسری سا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ "اگر اسے کوئی تھوڑا بہت گائیڈ کر دے تو کمال کی رائٹر بن سکتی ہے کیا کہتے ہو؟ زین العابدین سوال و جواب کے موڈ میں تھا۔" شاید ہاں"جب کہ عبدالرحمن نے موضوع گفتگو ختم کرنے والے انداز میں کہا
______
زندگی کے سفر میں کتنے کام ادھورے ہی رہ گئے۔بہنوں,بھائیوں گھر والوں کی ذمہ داریاں اٹھاتے نبھاتے میں بوڑھا ہوگیا۔زندگی کی پینتیس بہاریں دیکھ لیں مگر پھر بھی ان کا باپ نہ بن سکا۔آج بھی کتنے کام ادھورے ہیں؟چھوٹی بہنوں کی شادی ہے۔امی کا حج ہے اور بڑی بہن کے گھر بیٹی کی پیدائش پہ جو لوازمات اسے دینے ہیں وہ الگ……۔ چھوٹے بھائی کی مہنگی فیسیں اور اس کی خواہشات سب میرے ہی تو ذمہ ہیں۔میں آنکھیں بند کیے ذہن میں امنڈنے والے خیالات کو ایک فلم کی طرح دیکھ رہا تھا:۔
______
اگلے دن آفس میں وہ کسی تازہ پھول کی طرح مہکتی ہوئی ہنستی کھلکھلاتی میرے سامنے آکھڑی ہوئی اور براہ راست مجھ سے مخاطب تھی۔"رحمن صاحب !  کیسے ہیں آپ ؟"
"شکر ہے اللہ کا میں نے مختصر جواب دے کر نکل جانا چاہا مگر وہ میرے سامنے آکر ایسے کھڑی تھی کہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہے اور اس نے وقت ضائع کیے بغیر کہہ بھی دیا۔"میں نے سنا ہے آپ کے پاس اچھی اچھی کتابوں کی لمبی لسٹ ہے۔مجھے بھی دیں! مجھ سے بھی اپنا علم شئیر کیا کریں!میں بھی آپ کا کولیکشن دیکھنا چاہتی ہوں"۔اس نے حق جتانے والے انداز میں کہا اور اس کی بات سن کہ میں صرف اتنا ہی کہہ سکا۔"جی" اور وہاں سے پہلو بچا کہ نکل گیا۔
وہ ایسی ہی تھی لاپرواہ,شوخ,چنچل سارے سیکشن کی لاڈلی۔ڈائریکٹر صاحب کی پی اے تھی۔اس دفتر پہ اور اس کے ہر فرد پہ اپنا حق سمجھتی تھی اور سب سے ایسے ملتی تھی کہ سب اس کے عزیز و رشتہ دار ہو اور میری شامت اس لیے آجاتی کہ اس دفتر میں ایک میں ہی ابھی غیر شادی شدہ تھا اور وہ اس سیکشن کی اکلوتی دوشیزہ جس کی شادی کے لیے انہیں مجھ سے زیادہ مناسب رشتہ کوئی نہیں ملتا تھا اس لیے تو ہر آیا گیا مجھے چھیڑتا رہتا "جب تمہارے پاس آپشن ہیں تو تم کیوں نا شکری کرتے ہو؟" مگر میں کیا کروں میں گھر و معاش دیگر ذمہ داریوں میں گھرا ہوا,تھکا ہارا عمر رسیدہ شجر اس کھلتی ہوئی کونپل کو کیا سہارا دے سکوں گا؟وہ لاپرواہ تھی جب کہ مجھے پرواہ کرنے والی لڑکی چاہیے تھی جو میرے ساتھ میری ذمہ داریاں اٹھا سکے۔وہ حد سے زیادہ شوخ تھی اور مجھے سنجیدہ مزاج لڑکی پسند ہے وہ ناپختہ ذہن و دل کی مالکن تھی جب کہ میں چاہتا تھا مجھے کوئی میچور لڑکی ملے۔دنیا والے بھی ناں پتہ نہیں کیا کیا سوچتے رہتے ہیں اور ٹاویں لگاتے رہتے ہیں( ہونہہ) جس کو چاہیں ہیرو,ہیروئین بنا دیں,زرا نہیں مزاج و عادات دیکھتے۔بس اس سے شادی کر لو! اس سے بات کر لو! یار سچ ہے بیچلر ہونا بھی عذاب ہے:۔
__
"رحمن صاحب میری بات سنیں!"میں اپنی ٹیبل پہ کام کر رہا تھا کہ وہ میرے سر پہ آ کھڑی ہوئی۔"جی بولیے!"میری نظریں جھکی ہوئی تھیں۔"میرے دل میں ایک خیال رہتا ہے۔اس نے خود ہی میرے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھتے ہوئے کہا جب کہ میں نے اپنی کرسی غیر محسوس طریقے سے دور کھسکا لی جس پہ وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی:اچھا میں کہہ رہی تھی میں ناں شاعری کرتی ہوں تو ہر وقت میرے دل میں یہ خیال رہتا ہے کہیں یہ غلط تو نہیں ہے؟مجھے گناہ تو نہیں ہوگا؟کیوں کہ ہمیں ہر اس کام سے بچنا چاہیے جو ہمیں اللہ کی یاد سے غافل کرے"۔اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا جب کہ اس کی نظریں میری طرف تھیں اور میری نظریں نیچے۔"دیکھیے!آپ اس کے مقاصد دیکھیں شاعری کس مقصد کے لیے ہو رہی ہے؟"میں نے کرسی مزید دور کی۔"رحمن صاحب!شاعری تو رومینٹک ہی ہوتی ہے"۔اس نے بڑی آسانی سے کہہ دیا تھا جب کہ میں اپنی کرسی جتنی دور کر سکتا تھا میں نے کر لی شاید دیوار کے بالکل ساتھ اب اس سے مزید دور نہیں ہو سکتی تھی۔"دیکھیے!علامہ اقبال,فیض احمد فیض وغیرہ نے بھی شاعری کی ہے اور سب با مقصد شاعری تھی روحانیت کی طرف بلاتی تھی جو بندہ جس مزاج کا ہوتا ہے وہ اپنی تحریر و تقریر سے اپنے عمل سے اسے شو کرتا ہے اب آپ کی تحریریں رومانوی ہوتی ہیں جس سے آپ کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے اب یہ آپ پہ ہے کہ آپ دیکھیں کہ آپ کیا لکھ رہی ہیں اور آپ کا کیسا امیج لوگوں کو ملے گا؟"میں نے فائلوں اور گھڑی کی طرف دیکھنا شروع کر دیاجس کا مطلب تھا کہ اب وہ یہاں سے جائے مگر وہ جانے والی کہاں……"آپ مجھے تھوڑا گائیڈ کر دیا کریں! میری اصلاح کیا کریں پلیز! کس وقت آیا کروں آپ کے پاس؟"وہ مجھ سے پوچھنے لگی اس کی یہی بے تکلفی مجھے زہر لگتی تھی میں نے صاف جواب دیا۔"میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔میں نہیں کر سکتا اصلاح ……آپ کسی استاد سے اصلاح لیں میں شاعر نہیں ہوں"۔ 
_____

*میرے سجنا تیرے سنگ ہوں تو نہ ڈر ہے نہ پروا ہے 
مجھے مل گیا تو کچھ ایسے یہ میری کسی نیکی کا بدلہ ہے 
تیری ہو کہ ہو جاؤنگی میں ہر غم سے بھری 
میری دنیا میری جنت تیرا دل ہے تیرا گھر ہے 
تجھے دیکھوں تجھے چاہوں تیری ہی ہو کے رہوں 
آسماں پہ جو ہے سو ہے زمیں پہ اب تو میرا رب ہے *
شازمین عارف
"ویسے رحمن ! شازمین کی نئی غزل پڑھی ہے؟ اس میں اس کی اصلاح بنتی ہے"۔زین نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: "کیسی اصلاح ؟میں نے سوالیہ انداز اپنایا۔میرے سجنا کے ساتھ رحمن لگانا چاہیے تھا۔:
اس نے ہنستے ہوئے کہہ کر منہ دوسری طرف کر لیا جب کہ میں ایک سکتے کی کیفیت میں تھا ۔
______
"رحمن صاحب میری بات سنیں!"میں ڈائریکٹر صاحب کے کمرے میں آیا تھا مگر ڈائریکٹر صاحب ہو ناں ہو یہ محترمہ ہر وقت دستیاب ہوتی۔"جی کہیے !"میں نے کھڑے کھڑے پوچھا جب کہ وہ اپنی اسٹینو کی کرسی پہ براجمان تھی۔سچ سچ بتائیے گا آپ سال میں کتنی دفعہ ہنستے ہیں؟اف خدایا!اب میں اس سوال کا کیا جواب دوں؟مجھے خاموش پا کے  پھر سے بولی۔اب آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے ہیں سارے سیکشن والے کہتے ہیں۔آپ اپنی زندگی ایسے ہی گزاریں گے کبھی شادی نہیں کریں گے۔کیا آپ نے اپنا دل گردہ کسی کو ڈونیٹ کر رکھا ہے؟"اس نے سوال اٹھائے۔نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔میری کچھ ذمہ داریاں ہیں۔جب وہ ختم ہو جائیں گی تو میں اس بارے میں  سوچوں گا اور دل گردہ ڈونیٹ نہیں کیا میں نے"۔میں نے جان چھڑانا چاہی۔"رحمن صاحب میں آپ کے لیے کوئی لڑکی دیکھوں!" اس نےمسکراتے ہوئے کہا۔نہیں آپ کی مہربانی"۔میں نے ہاتھ جوڑے اور فائل سینے سے لگائی اور کمرے سے نکل گیا جب کہ میرے دل نے کہا۔"کہیں اپنے جیسی نہ ڈھونڈ لے………"
_____
مجھے گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔آج چھوٹی بہن کے سلسلے میں کچھ لوگ آئے ہوئے تھے۔میرے بیٹھتے ہی بہن کی ہونے والی ساس گویا ہوئی۔"بیٹے کے کتنے بچے ہیں؟اس کی بیوی نظر نہیں آرہی ہے؟جس پہ امی اور بہنوں نے مجھ سے نظریں چُرا کے ایک دوسرے کو دیکھا اور خاموشی احتیار کر لی۔شاید وہ اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہ رہے تھے مگر وہ عورت بھی بڑی پکی تھی پھر بولی۔شادی نہیں ہوئی یا علیحدگی ہو گئی ہے؟"اس نے جاننا چاہا۔نہیں,نہیں بہن اللہ معاف کرے علیحدگی کیوں ہوگی؟ابھی شادی نہیں ہوئی ہے میرے بیٹے کی ,ابھی تو رشتے دیکھ رہے ہیں۔جلد ہی انشاءاللہ شادی بھی ہو جائے گی۔"امی کے الفاظ عورت کی تسلی کے لیے کافی تھے اور میں نے بہنوں کی موجودگی میں وہاں سے اٹھ جانا مناسب جانا اب بہنوں کی موجودگی میں,میں شادی کرتا اچھا لگتا ہوں کیا؟دنیا والے ہی نہیں جینے دیتے یا شاید اب میں عمر کے اس حصے میں ہوں کہ میرے ہم عمر شادی شدہ ہیں اور پھر ساری شادی کے دوران ایک سوال میرے لیے عذاب بنا رہا۔ہر آیا گیا یہی پوچھتا رہا۔(کتنے بچے ہیں؟شادی کیوں نہیں کی؟اللہ معاف کرے لوگ نجانے کیسے کیسے گمان کرنے لگے) اور جتنا اس سوال نے مجھے ستایا۔اتنا ہی میری والدہ کو بھی پوچھ پوچھ کے پریشان کیا گیا۔جس پہ انہوں نے اپنا سر پکڑ لیا اور مجھ سے کہنے لگی:"اب کچھ بھی ہو جائے تم شادی کر لو!وگرنہ دنیا مجھے جینے نہیں دے گی۔میں کس کس کو جواب دوں؟کہاں کہاں چھپوں؟میں آج ہی لڑکیاں چھانٹتی ہوں اور تمہاری ذمہ داری سے سبکدوش ہوتی ہوں۔امی نے فیصلہ لیا۔" مگر امی ابھی انیلا کی شادی تو ہو لینے دیں! میں نے التجاء کی۔سارے کام ہو جائیں گے۔پہلے ہی تمہارے ساتھ بہت ظلم کیا۔تین بیٹیوں کے چکر میں تمہیں بالکل ہی  بھلادیا۔امی نے افسوس کیا بہنوں میں الجھ کے تم اپنی زندگی کی کتنی بہت سی بہاریں دیکھ ہی نہ سکے۔اب اللہ مالک ہے۔تم اپنا گھر بسانے کی کرو! مجھے کوئی لڑکی بتاؤ!یا میں ڈھونڈ لوں؟"امی نے استفہامیہ نظروں سے مجھے ٹٹولا۔ میری کوئی پسند نہیں ہے آپ کسی بھی لڑکی سے میری شادی کروا دیں! میں نے تیزی سے کہااور کمرے سے باہر نکل گیا اگلے دن اتوار تھا والدہ اور بہنیں لڑکی تلاش مشن پہ نکلی ہوئی تھیں۔مہینہ بھر سے کھوجی مشن جاری تھا مگر آج والدہ,بہنیں بہت خوش تھی اور اس انجانی دوشیزہ کے حسن میں رطب اللسان تھی اور پھر چند دن تک لڑکی کے گھر والے آئے انہوں نے مجھے دیکھا اور پسند کر لیا۔یوں چند دنوں میں بات پکی ہو گئی اور میں نے اپنے دفتر میں سب کو بتا دیا کہ بات پکی ہوگئی ہے اور شادی ہونے والی ہے۔سب میری خوشی میں خوش تھے سب نے شکر کیا کہ اب یہ آخری کنوارہ بھی کنوارہ نہ رہا اور شاید میرے بھی دل میں سکون سا بھر گیا۔یار! میں بھی ایک ستا دینے والے سوال سے تنگ آچکا تھا۔اور شاید اکیلے رہتے رہتے بھی۔اب میں اپنی زندگی جینا چاہتا تھا۔کسی کی آغوش میں سر رکھ کر سونا چاہتا تھا۔ماں,بہن,بھائی کے علاوہ ایک محبت اور  کرنا چاہتا تھا۔
_____
*کبھی جلائی جائے گی
کبھی زندہ دفنائی جائے گی
عورت کل بھی پاؤں کی جوتی تھی
آج بھی یہی کہلائی جائے گی
اس کی توہین کرنا حق سمجھے گا مرد اپنا
وہ کل بھی نا پسندیدہ تھی
آج بھی یہی کہلائی جائے گی *
شازمین کی غزل میں نے پڑھی۔"یار !یہ اس نے غلط لکھا ہے۔عورت تو قابل محبت,قابل احترام ہے"۔یہ پہلی دفعہ تھا کہ میں خود زین سے شاعری پہ ڈسکس کر رہا تھا۔شاید اندر کا موسم اچھا تھا اس لیے باہر اچھے تاثرات آ رہے تھے۔"تو تم سمجھاؤ نا شازمین کو! چلو شادی سے پہلے پہلے یہ نیکی کر جاؤ تم سے تو اصلاح کا کہتی رہتی ہے"۔اور مجھے خود یقین نہیں آرہا تھا میں شازمین کے سامنے کھڑا تھا۔شازمین!اس دفعہ غزل ٹھیک نہیں لگی مجھے۔ماں,بہن,بیٹی سب قابلِ عزت و قابلِ احترام ہیں یہی تو وہ نازک کلیاں ہیں جو مرد کو عورت کا محافظ بناتی ہیں۔مرد کے گھر و دل کی ملکہ عورت ہر روپ میں باعث محبت,عزت,احترام ہیں"۔میں شازمین  کو سمجھا رہا تھا اور وہ خاموشی سے سن رہی تھی شاید اداس بھی تھی۔اب پٹر پٹر باتیں نہیں کرتی تھی چپ سی ہو گئی تھی۔رومانوی غزلوں سے سنجیدہ موضوعات پہ لکھنے لگی تھی۔ایسی تحریریں جن پہ گمان بھی نہیں ہوتا تھا کہ شازمین  ایسی تحریریں بھی لکھ سکتی ہیں۔دفتر میں سبھی نے اس کی خاموشی کو محسوس کیا۔وہ شوخ,چنچل سے,ایک دم سے سنجیدہ,محتاط,کم گو ہو گئی تھی اب وہ کسی پہ اپنا حق نہیں جتاتی تھی بس اپنے کام سے کام رکھتی تھی:۔
_______
آج میری شادی کا دن ہے۔میں بہت خوش ہوں کہ آج
میری شادی کا دن ہے اور مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میری بھی شادی ہو رہی ہے۔مجھ جیسی بڑھتی ہوئی عمر کے دلہے کی دلہن کو  دیکھ کر لوگ میری ماں بہنوں کو داد دئیے بغیر نہیں رہ رہے تھے کہ دلہن بہت خوب صورت ہے رحمن کو صبر کا پھل بہت میٹھا ملا ہے۔اللہ نے اس کی ماں کی خدمت,بہنوں کے لیے دی جانے والی قربانی,یتیم بھائی کی کفالت کا اجر اسی دنیا میں دے دیا۔ایجاب وقبول کا سلسلہ شروع  ہوا۔
شازمین عارف کا نام میری سماعتوں سے ٹکرایا تو میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔گھر میں بہنیں شازی, شازی کہتی تھیں مگر میں نے کبھی غور نہیں کیا تھا اور پھر ناموں سے تو نام ہوتے ہیں۔شرم کے مارے کبھی تفصیلی پوچھ گچھ بھی نہیں کی مگر اب نکاح نامے پہ تو شازمین عارف تھی۔دفتر کے تمام دوست احباب شازمین کا نام لے لے کر مجھے چٹکیاں کاٹنے لگے اور جب دلہن بنی شازمین  میرے پہلو میں بیٹھی تو مانو میرے جسم سے جان نکل گئی۔میں سکتے کے عالم میں تھا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ شازمین مجھے مل جائے گی۔میں بے یقینی کی کیفیت سے دوچار تھا۔ خود کو یقین دلانے کے لیے میں نے سب کی پرواہ کیے بغیر دلہن کا سارا گھونگھٹ الٹ دیا سب کی نظریں مجھ پہ تھیں۔ایک شوخ سی مسکان نے لوگوں کو گھیرا ہوا تھا۔"دلہے نے دلہن کا گھونگھٹ الٹ دیا !!!!وہ شازمین ہی تھی جو سجی سنوری دلہن بنی بہت ہی زیادہ حسین لگ رہی تھی۔شازمین یہ تم ہو؟" بے ساختہ  میرے منہ سے نکلا جب کہ اس نے مسکرا  کر اپنا گھونگھٹ نیچے کر لیا۔یار شازمین !میری رکی سانس خارج ہوئی اور میرا دل بولا۔شکریہ میرے مولا شکریہ تم نے بن مانگے ہی مجھے اجرِ عظیم عطا فرما دیا۔میری ریاضتوں کا پھل مجھے شازمین کے روپ میں مل گیا اب میں کُھل کے مسکرا سکوں گا،جی سکوں گا کیوں کہ میں جانتا ہوں شازمین  کو زندگی جینے کے سارے گُڑ آتے ہیں:۔
*میری زندگی میں میری آس بن کے
میرے پاس رہنا میری سانس بن کے *
اور اب شبِ وصل کے حسین لمحات میں غزل شازمین  نہیں بلکہ میں بذات خود سنا رہا تھا۔اللہ جب نعمتیں دے تو شکر کرنا چاہیے۔ٹھیک کہا ناں میں نے؟ہے ناں؟ کیا خیال ہے ؟

                         ختم شد
Scroll to Top