نورالہدیٰ
پنجاب یونیورسٹی لاہور
دنیا کی تمام چیزوں میں اچھائی اور برائی کا پہلو موجود ہے اب یہ ہماری عقل و شعور پر منحصر ہے کہ ہم کس پہلو کو اختیار کرتے ہیں اگر اچھائی کے پہلو کو مدنظر رکھا جائے تو یقینا انسانی مثبت سوچ انسانی رجحانات انسان کی منزل کا تعین کرتی ہے اور اگر چیزوں کا استعمال مثبت انداز میں کیا جائے تو اس سے انسانیت فیض یاب ہو سکتی ہے۔آج کل کے جدید دور میں سوشل میڈیا کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ سوشل میڈیا بہت پاور فل ٹول ہے جو انسان کے نظریات کو پروان چڑھانے اور حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرکے لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کرتا ہے۔آج کل انفارمیشن ایک کلک کی دوری پر ہے۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ایسی ویب سائٹس موجود ہیں جہاں پر بکھری ہوئی انفارمیشن کا ایک سیلاب موجود ہے لیکن ہم یہ یقین نہیں کر سکتے’آیا کہ یہ انفارمیشن درست ہے یا نہیں’ اور لوگوں کو بغیر کسی کوشش کے ہر چیز فراہم ہے۔ سوشل میڈیا ایک ایسا جال ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے جس نے نوجواں کو تو متاثر کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اب بچوں پر بہت گہرے اثرات چھوڑ رہا ہے۔
سوشل میڈیا نے خبروں اور معلوماتی مواد کو فروغ دیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن جہاں اس کے فائدے ہے وہی اس کے نقصانات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سوشل میڈیا کا بہاؤ بہت وسیع اور لا محدود ہے۔ آگراس کو مثبت انداز میں اس کا استعمال کیا جائے تو یہ کسی بھی معاشرے میں نعمت سے کم نہیں ہے
ہاورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کے جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق:
جب کوئی شخص سوشل نیٹ ورکنگ کر رہا ہوتا ہے تو اس کے دوران اس کے دماغ کا ایک مخصوص حصہ متحرک ہو جاتا ہے۔یہ دماغ کا وہ حصہ ہے جو کوئی نشہ ( جیسا کہ کوکین وغیرہ کا استعمال) کرتے ہوئے متحرک ہو جاتا ہے۔ لہذا سوشل میڈیا بھی ایک ایسا نشہ ہے جو کہ اپنے صارفین کو اس طرح اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ صارفین اس کو استعمال کرنے کی بجائے خود استعمال ہو رہا ہے۔
موجودہ دور میں یہ نوجوان کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں سوشل میڈیا نوجوان کے دماغ اور دل پر بہت بری طرح حاوی ہو گیا ہے۔اس برقی دور میں جہاں ہر چیز’ سپیڈ آف لایٹ ‘ کی طرح سکرین کا حصہ بنتی جا رہی ہے وہی جذبات،احساسات اور خیالات بھی الیکٹرونک میڈیا کا حصہ بن چکے ہیں۔
پرنس ستم بن عبد العزیز یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق:
یونیورسٹی میں 300(30-17) سالہ طالبات کے درمیان ایک کروس سیکشنل مطالعہ کیا گیا۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ ٪97 طلباء نے سوشل میڈیا ایپلیکیشنز کا استعمال کیا۔ ان میں سے صرف ٪1 نے تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ جہاں ان میں سے٪35 نے ان پلیٹ فارمز کو دوسروں کے ساتھ چیٹ کرنے کے لیے استعمال کیا ان میں سے٪43 نے وقت گزارنے کے لیے ویب سائٹس کا استعمال کیا۔
مزید ان میں سے٪57 سوشل میڈیا کے عادی تھے۔ مزید برآں،ان میں سے ٪52 نے بتایا کہ سوشل میڈیا کے استعمال نے ان کے سیکھنے کی سرگرمیوں کو متاثر کیا۔ ان میں سے٪66 نے محسوس کیا کہ وہ تعلیم کی بجائے سوشل میڈیا پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔٪74 نے اپنا فارغ وقت سوشل میڈیا پر گزارا۔ سب سے زیادہ مقبول ‘ایپلیکیشن’ استعمال کی بنیاد پر
ٹویٔٹر (٪18)
انسٹاگرام (٪22)
سنیپ چیٹ (٪45)
واٹس ایپ (٪7)
مزید ان میں سے ٪46 اور ٪39 نے بالترتیب 11بجے سے 12بجے اور صبح 1 اور 2 بجے کے درمیان سونے کی اطلاع دی۔ آخر کار ان میں سے ٪68 نے اپنے سونے کے وقت میں تاخیر کی وجہ سوشل میڈیا کا استعمال بتایا ۔
شرکاء کی اکثریت نے غیر تعلیمی مقاصد کے لیے سوشل میڈیا سائیٹس کے طویل استعمال کی اطلاع دی۔ یہ عادت یا رویہ طلباء کو ان کے تعلیمی کارکردگی ، سماجی تعاملات اور نیند کے دورانیے کو بری طرح متاثر کر سکتے ہیں ۔ ان کی طرز زندگی اور جسمانی بے عملی کا باعث بن سکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں وہ غیر متعدی امراض اور ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں ۔سوشل میڈیا یونیورسٹی کے ویلیو سسٹم کو لائک اور شیر کے لیے نئی شکل دے رہا ہے ۔ ایک تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ تحقیق کے بارے میں یونیورسٹی کے فصلیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ساتھ ‘ جوڑے ‘ ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ وہ اکیڈمکز سے آگے اپنے اثرورسوخ کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیڈنگ کے لیے مقابلہ کرتے ہیں ۔
نوجوان کی سوشل میڈیا سے دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ساری دن کی تھکن اور مصروفیت کے باوجود اس کا استعمال کرتے ہیں ۔ کتنے لائکز اور شیرز کی گنتی میں الجھ کر اپنی ذات کو فراموش کر بیٹھے ہیں اور معاشرے سے کٹتے جا رہے ہیں۔ اپنوں کے درمیان ہنستے ہوئے جینے کا نام زندگی ہے۔ کوئی بھی چیز بری نہیں ہوتی لیکن اس چیز کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔
نوجوان صحت مندانہ سرگرمیوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ نیند کی کمی میں اضافہ ہو رہا ہے جو ان کی ذہنی صلاحیتوں کو کم کر رہا ہے۔ اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ دین سے دوری کا باعث بھی بن رہا ہے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ وہ کس اندھے کنواں میں گرتے جا رہے ہیں۔
جی سی ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ، کی تحقیق کے مطابق:
سوشل میڈیا آج بہت سے نوجوانوں کی زندگی کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس گرما گرم مسائل پر بحث کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہیں جن کو روزانہ کی بنیاد پر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ سوشل میڈیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال نے نوجوانوں میں خاص طور پر یونیورسٹیوں کے طلباء میں اس کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے۔ زیادہ تر لوگ یہ سوچے بغیر سوشل میڈیا کے ساتھ مشغول ہوتے ہیں کہ ہماری زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، خواہ مثبت یا منفی۔ موجودہ مطالعہ نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے اثرات کی نگرانی کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ سروے کی قسم کی تحقیق ہے جس میں نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے اثرات کا تجزیہ کرنے کے لیے سوالنامے کا مطالعہ تیار کیا گیا ہے اور سادہ بے ترتیب نمونوں کو استعمال کرتے ہوئے جی سی ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ سے 375 طالبات کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اس تحقیق میں دیکھا گیا ہے کہ 59 فیصد جواب دہندگان نے اس بات پر سختی سے اتفاق کیا کہ سوشل میڈیا نوجوانوں میں بیداری پیدا کرنے میں مددگار ہے جبکہ 89 فیصد جواب دہندگان اس بات پر متفق ہیں کہ اس سے نوجوانوں کے لیے ملازمتیں تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ جبکہ 96% جواب دہندگان نے اتفاق کیا کہ سوشل میڈیا ملک کے حالات حاضرہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں مددگار ہے۔ دوسری جانب میڈیا کے نقصانات پر غور کرتے ہوئے 93 فیصد جواب دہندگان اس بات پر متفق ہیں کہ سوشل میڈیا کا بہت زیادہ استعمال صحت کے مسائل کا باعث بنتا ہے اور 94 فیصد جواب دہندگان اس بات پر متفق ہیں کہ ناپسندیدہ معلومات نوجوانوں کے ذہنوں میں کنفیوژن پیدا کرتی ہیں، 91 فیصد جواب دہندگان نے اتفاق کیا کہ غیر متعلقہ اور مخالف مذہبی پوسٹس اور روابط مختلف کمیونٹیز کے لوگوں میں نفرت پیدا کرتے ہیں۔ نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے نوجوانوں پر مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ تجویز کیا گیا کہ سرکاری اور نجی اداروں دونوں کو نوجوانوں میں سوشل میڈیا کی مثبت سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
سائنس کی ترقی انسانوں کی بھلائی اور فلاح کے لئے ہوتی ہے مگر افسوس! آج کے اس دور میں منفی پہلو کو زیادہ نمایاں کر دیا گیا ہے لیکن اس کے مثبت پہلو سے بھی انحراف نہیں کیا جا سکتا ۔
آج کے اس ورچیل دور میں بہت سے نوجوان گھر بیٹھے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں ۔ نوجوان کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو دن رات آئی ٹی کے شعبے میں سرگرم ہے اور بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوا رہے ہیں ۔ کچھ نوجوان نے ایسی تعلیمی ویب سائٹ بھی بنائی ہیں جہاں سے طلباء حل شدہ نوٹس اور پاسٹ پیپرز بھی موجود ہوتے ہیں جو طلباء کی رہنمائی کرتے ہیں ۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھے تا کہ وہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب نہ بنے ۔
نوجوانوں کو بھی اب خود یہ سوچنا ہوگا کہ ان کو کس طرف جانا ہے۔ نوجوانوں کو اس بات کے قابل ہونا چاہیے تاکہ وہ اچھائی اور برائی کا تعین کر سکیں اس پھیلتی ہوئی برائی اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کا سد باب کرنا ہوگا اگر اس کا درست استعمال نہ کیا گیا تو یہ پورے معاشرے کا شیرازہ بکھیر کے رکھ دے گا۔
[email protected]