پنجاب میں خواتین اوربچوں کیخلاف تشدد اوراغوا کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ

حیدر علی۔۔۔پنجاب یونیورسٹی لاھور

پاکستان کے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے باسیوں میں آج کل شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ چند ماہ میں لاہور میں بچوں اور خواتین کی گمشدگی اور اغوا کی بڑھتی ہوئی وارداتیں ہیں۔ پاکستان میں خواتین اور بچوں کے خلاف گزشتہ تین برسوں میں مختلف نوعیت کے 63 ہزار تین سو سٹرسٹھ جرائم ہوئے۔ ان واقعات کی وجہ سے معاشرے کے کئی حلقوں میں سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا پاکستانی سماج بدامنی کی راہ پر چل پڑا ہے۔
گزشتہ بیس برسوں میں پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی قوانین بنائے گئے ہیں لیکن پھر بھی خواتین کے خلاف جرائم پر قابو نہیں پایا جا سکا۔
رواں سال کے پہلے 4 ما ہ کے دوران پنجاب میں خواتین پر تشدد کے 10ہزار جبکہ بچوں پر تشدد کے ڈیڑھ ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کی تحقیق کے مطابق پنجاب میں چار ماہ کے دوران خواتین اوربچوں پرتشددکے 12 ہزارسے زائد مقدمات درج ہوئے ہیں۔ پنجاب میں ابتدائی 4 ماہ کے دوران 5551 خواتین کو اغوا کیا گیا
پنجاب میں خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد کے مقدمات کی ایف آئی آرز میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، نجی تنظیم کی رپورٹ کےمطابق اس عرصے میں ساڑھے پانچ ہزار سے زائد خواتین اغوا ہوئیں، اوسطاً ہر ایک گھنٹے میں دو خواتین اغوا ہوئیں، ایسے واقعات کا ہاٹ اسپاٹ ضلع لاہور رہا۔
خواتین اوربچوں کے حقوق کیلئے سرگرم نجی تنظیم نے 2023 کے پہلےچار مہینوں میں پر تشدد واقعات کی رپورٹ جاری کردی ہے۔ رپورٹ کےمطابق جنوری سے اپریل تک پنجاب میں خواتین پرتشدد کے 10 ہزار اوربچوں پر تشدد کے 1768 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ 5551 خواتین کو اغواکیاگیا۔
خواتین سے زیادتی کے ایک ہزار 111 جبکہ بچوں سے زیادتی کے 858 واقعات سامنےآئے، ہر روز تقریباً 7 بچوں کو جنسی زیادتی کانشانہ بنایاگیا۔ پولیس سے حاصل کردہ ڈیٹا کےمطابق لاہور سب سے زیادہ کیسز کے ساتھ ہاٹ اسپاٹ ضلع رہا۔
سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کے مطابق رپورٹ نہ ہونے والے کیسز کی اصل تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے، کیونکہ بہت سے لوگ سماجی بدنامی کے خوف اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد کی کمی کی وجہ سے ایسے کیسز کی پولیس کو رپورٹ نہیں کرتے ، دوسری جانب بچوں کی اسمگلنگ یا بچوں کے خلاف نفسیاتی حملوں سے متعلق کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔
تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کوثر عباس کےمطابق تشدد کے مقدمات کے اندرا ج میں پنجاب پولیس کا کردارقابل تحسین ہے۔ درج کیسزکی بدولت ایسے واقعات کی رپورٹنگ اضافہ دیکھاگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان اعداد و شمار کو باقاعدگی سے شائع کرنے کا مقصد خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد میں تیزی سے ہونے والے اضافے کی جانب توجہ مبذول کرانا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں امید ہے کہ یہ اعداد و شمار متعلقہ حکام کے لیے اس طرح کے واقعات کو روکنے اور ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں ۔
ان واقعات کی وجہ سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل چکا ہے، حکومت ان معاملات کو سنجیدگی سے دیکھے۔ایسے سنگین مسائل کے حل کے لیے شہریوں،پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا، قانون نافذ کرنے والے اداروں، سول سوسائٹی سب کو مل جل کر کوشیش کرنا ہونگی۔جو گروہ یا عناصر اغوا کی گھنائونی واردا توں میں ملوث ہیں ان کی گرفتاریوں کو یقینی بنایا جائے اور ان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ خوف و ہراس ختم کیا جا سکے۔

Scroll to Top