کیوں کہ میں عورت ہوں

شیباحنیف

گھر تو آخر گھر ہوتا ہے اپنا گھر ہی زر ہوتا ہے میں عورت ہوں کٹ جانے کو گھر کی خاطر سر ہوتا ہے

”میں تسلیم فاطمہ, بھاری بستہ اٹھاٸے ایک ہاتھ میں پانی کی بوتل جبکہ دوسرے ہاتھ میں پیڑی لیے سکول کی جانب بھاگتی ہوٸی۔۔۔ پیڑی اور بوتل اس لیے ,کیونکہ میں گورنمنٹ سکول میں زیر تعلیم تھی۔ پانچ بہنیں دو بھاٸی والد صاحب ٹی بی کے مریض سرکاری ملازم تھے اور ویسے بھی مجھے تو اپنے بچپن میں یہ خبر تک نہیں تھی کہ پراٸیویٹ سکول بھی ہوتے ہیں جہاں پینے کو صاف پانی اور بیٹھنے کو کرسیاں میز ملتے ہیں میں نے تو آنکھ ہی سرکاری سکول کے کچے فرش پہ کھولی ,جہاں سردیوں میں فرش پہ جا کے خود پانی لگاتے، جھاڑو لگاتے پھر سردی سے سرخ ہوٸے ہاتھوں سے ٹاٹ بچھاتے اور کپکپاتے ٹھنڈے فرش پہ بیٹھ جاتے۔جب کہ قیامت کی گرمی میں پانی والی ٹونٹیاں لڑکیوں کے جم غفیر سے یوں بھری ہوتی کہ پانی پینا محال ہوتا۔ مانو جیسے کربلا کا میدان سجا ہوتا۔سکول کے واش روم انتہا درجے کے گندے کہ” اللہ کی اماں “ مگر وہ دن اچھے تھے بے فکری تھی ماں باپ کا احساس تھا کبھی کبھی جیب خرچ کے لیے ایک روپیہ بھی مل جاتا ۔جسے جرابوں میں سنبھال کے رکھتے اور اس ایک روپے کی خوشی سب سے پیاری ہوتی ۔ہاٸے ہاٸے! سہانے دن کتنی جلدی بیت گٸے؟ دسویں پاس کرتے ہی ماں باپ نے پیا گھر سدھار دیا ۔ میرا میاں جیسا بھی تھا جو بھی تھا میرے ماں باپ کی پسند تھی۔میرے سگے ماموں کا بیٹا تھا ہٹا کٹا شیر جوان خوب صورت۔ مجھے قبول تھا۔ ہاں اگر ٹھوڑا بہت نشہ پانی کر بھی لیتا ہے تو کیا ہوا؟ زمانے بھر کے مرد یہی تو کرتے ہیں ۔ اب اپنے گھر کا پردہ بھی تو رکھنا ہوتا ہے نا؟ سچ تو یہی ہےگھر چلانا بہت مشکل ہے ۔ اس لیے تو در در کے دھکے کھاتی ہوں۔تو کیا ہوا؟ اگر دھکے کھاتی ہوں۔ اپنے گھر کے لیے عورت کو خود کو مارنا ہی پڑتا ہے یونہی تو گھر نہیں بستے۔ بڑی ہمت و برداشت سے کام لینا پڑتا ہے ۔زمہ داریوں سے بھاگی ہوٸی طلاق یافتہ عورت کسی دروازے کا کھونٹا نہیں ہوتی ۔اس کا جینا تو کیا اس کا مرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔لوگ عورت کو ہی غلط گردانتے ہیں۔چلو میرا شوہر مجھے مار بھی لیتا ہے تو کیا ہوا ؟پیار بھی توکرتا ہے ۔پیار کا ہی تو نتیجہ ہے جو بچے ہوں گٸے ۔بچے نا ہوتے تو میری زندگی کیسی بنجر و ویران ہوتی۔اولاد تو اللہ کے خاص بندوں کو تحفتا ملتی ہے ۔ پتہ نہیں میں نے کیا نیکی کی تھی جو اللہ نے مجھے ہنستے کھیلتے بچے دے دیے ۔ بس ان کا ہی دھڑکا لگا رہتا ہے خود تو صبح ان کے لیے کمانے نکل جاتی ہوں جب کہ بچے بچارٕے باپ کی نگرانی میں سارا دن گھر پہ ہی ہوتے ہیں ۔وہ بھی سرکاری سکول میں پانی کی بوتل لے کے جاتے ہیں ۔ بس پیڑی کی ضرورت نہیں رہی وہاں ۔اب تو سرکاری سکولوں میں بھی کرسیاں آ گٸی ہیں ۔ہاں مگر یہ بھی سچ ہے کہ بچے مجھ سے دور ہوگٸے ہیں ۔اب میری بھی مجبوری ہے میں ان کے لیے کماٶں کے انہیں لوریاں سناٶں اور دن بھر تھکی ہاری میاں کی فرمانبرداری مجھ سے تو نہیں ہوتی۔ کیا ہوا جو بچوں کےسامنے ماں باپ کی جنگ چھڑی رہتی ہے ۔بچے اس بات کے عادی ہوگٸے ہیں کہ ابا سارا دن سگریٹ پھونکتا ر ہتا ہے اور ماں کبھی ایک گھر جھاڑو پونچھا کرتی ہے تو کبھی دوسرے گھر۔ میری اولاد اپنے باپ کی طرح مجھ سے خفا رہتی ہے لیکن ابھی بچے چھوٹے ہیں نا۔ ایک دن میری مجبوریاں سمجھ جاٸے گے ۔ہیں ناں ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں میں؟؟

Scroll to Top