فاضل علی
پنجاب یونیورسٹی ، لاہور
یونان کے ساحلی علاقے میں 14 جون بروز بدھ کو کشتی ڈوبنے کا حادثہ ہوا تھا۔ کشتی ڈوبنے سے 78 افراد ہلاک ہوئے جب کہ 104 کو بچا لیا گیا تھا، کشتی میں پاکستانی، مصری، شامی اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً 750 تارکین وطن سوار تھے۔ یہ معلوم نہیں ہے کشتی پر کتنے لوگ سوار تھے، ’لیکن کئی سمگلر لوگوں کو قابو میں رکھنے کے لیے بند کر دیتے ہیں۔ لاپتہ ہونے والوں میں سے کچھ کے اہل خانہ اپنے پیاروں کی تلاش میں یونان پہنچ چکے ہیں ایک شامی نژاد شہری نے بتایا کہ اس کی بیوی اور بہنوئی لاپتہ ہیں۔ جبکہ ایک خاندان کے چودہ افراد لاپتہ ہیں نیز کہ لاپتہ ہونے والے افراد کے خاندان کا ہر شخص ایک قیامت سے گزر رہا ہے کستانی شہری کہنا ہے کہ انسانی سمگلروں نے ان کے بیٹے کو جھانسے سے اس کشتی میں بٹھایا جو یونان کے قریب الٹ گئی سمگلروں نے میرے بیٹے کا برین واش کیا ، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے ایک گاؤں میں ہر گھر میں کہرام ہے مگر پیاروں کے زندہ بچنے کی کویٰی امید نہیں ‘
پاکستان سے یورپ انسانی اسمگلنگ کا خونی کھیل گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، انسانی اسمگلرز لوگوں کو پاکستان سے یورپ بھیجنے کے لیے 2 مختلف روٹ اختیار کرتے ہیں۔
غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کے لیے پہلے اور قدیم روٹ کو ‘ترکی روٹ’ کہا جاتا ہے اس میں انسانی اسمگلرز لوگوں کو بلوچستان کے تفتاں بارڈر سے ایران اور پھر ایران سے مکو پہاڑی کے راستے ترکی لے جاتے ہیں۔ ترکی سے پھر انسانوں کو یونان اسمگل کیا جاتا ہے، اس روٹ کا زیادہ حصہ خشکی کے راستوں پر مشتمل ہے۔
صرف یونان سے پہلے سمندر کا ایک چھوٹا حصہ عبور کرنا پڑتا ہے، اس راستے پر یونان نے کچھ عرصہ قبل اتنی سکیورٹی بڑھا دی ہے کہ اب یہاں سے داخل ہونا آسان نہیں ہے۔ یونان کا روٹ بند ہونے پر انسانی اسمگلرز نے اپنا دھندہ چلانے کے لیے لیبیا کے ذریعے اٹلی کا نیا روٹ بنا رکھا ہے، اس میں پاکستانیوں کو یہاں سے ہوائی راستے سے پہلے دبئی، مصر اور پھر لیبیا لے جایا جاتا ہے جہاں انہیں بن غازی اور تبرک کے علاقوں سے طویل سمندری راستے کے ذریعے اٹلی منتقل کیا جاتا ہے۔
مقدمے میں نامزد ملزمان جس میں مقامی افراد کم از کم دس ہیں، نے انسانی سمگلنگ کا گروپ منظم کررکھا ہے جو مقامی سطح پر اپنے اپ کو ایجنٹ ظاہر کرکے عوام کو ورغلا کر اور بھلا پھسلا کر قانونی طریقے سے یورپ لے جانے کا جھانسہ دے کر بھاری رقم بٹورتے ہیں۔ بعد ازاں ان افراد کو بحیرہ روم کے سمندر کے راستے غیر محفوظ اور غیر قانونی طور پر ڈنکی لگا کر بھجتے ہیں اور انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
کچھ عرعہ قبل ان لوگوں نے تحصیل کھوئی رٹہ کے متعدد افراد کو بھی جھانسہ دے کر یورپ لے جانے کے بہانے خطیر رقم بٹوری گئی اور 14 جون کو ان افراد کو یونان کی سمندری حدود میں ایک کشتی میں سوار کرایا۔کشتی میں 300 سے 350 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش موجود تھی مگر اس آٹھ سو افراد کو سوار کرایا گیا۔
یونان میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے افسوسناک حادثے میں بچ جانے والے مسافروں نے حادثے میں پاکستانیوں زیادہ اموات ہونے سے متعلق سنسنی خیز انکشاف کیے ہیں۔ یونان کے ساحل کے قریب ڈوبنے والی کشتی کے بچ جانے والے مسافروں نے بتایا کہ پاکستانی مسافروں کو کشتی کے نچلے حصے میں جانے پر مجبور کیا گیا جبکہ دوسری قومیت والوں کو کشتی کے اوپری حصے میں جانے کی اجازت تھی۔ کشتی کے اوپری حصے کے مسافروں کے بچنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، کشتی کے نچلے حصے سے پاکستانی اوپر آنا چاہتے تو ان سے بدسلوکی کی جاتی، خواتین اور بچوں کو بظاہر مردوں کی موجودگی کے سبب بند جگہ پر رکھا گیا تھا۔ گنجائش سے زیادہ مسافروں سے بھری کشتی سمندر میں ڈوبنے سے قبل کم از کم سات گھنٹے تک حرکت کرنے کے بجائے ایک ہی جگہ پر کھڑی رہی تھی۔ لوگ بے بسی کی حالت میں موت کو اپنی طرف بڑھتا دیکھتے رہے
ہر سال انسانی سمگلنگ کا کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آتا ہے جس میں لوگ جان کی بازی ہار جاتے ہیں مگر ابھی تک اس کے بارے میں کسی بھی ملک میں بہترین انتظامات پیش نہیں کئے گئے۔ اور نہ ہی عام عوام کو اس کے بارے میں کوئی آگاہی دی گئی ، جس کے باعث لوگ آسانی سے ان کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں اور پھر مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
انسانی اسمگلنگ سے مراد لوگوں کی بھرتی، نقل و حمل، منتقلی، پناہ گاہ یا وصولی کے ذریعے زبردستی، دھوکہ دہی یا فریب کے ذریعے منافع کے لیے ان کا استحصال کرنا ہے۔ دنیا بھر میں ہر عمر اور تمام پس منظر کے مرد، عورتیں اور بچے اس جرم کا شکار ہو سکتے ہیں، جو دنیا کے ہر خطے میں ہوتا ہے۔ اسمگلر اپنے متاثرین کو پھنسانے اور زبردستی کرنے کے لیے اکثر تشدد یا دھوکہ دہی سے بھرے روزگار ایجنسیوں اور تعلیم اور ملازمت کے مواقع کے جھوٹے وعدوں کا استعمال کرتے ہیں۔
اسمگلر اپنے متاثرین کو کنٹرول کرنے کے لیے جسمانی اور جنسی زیادتی، بلیک میل، جذباتی ہیرا پھیری اور سرکاری دستاویزات کو ہٹانے کا استعمال کرتے ہیں۔ استحصال متاثرہ کے آبائی ملک میں، ہجرت کے دوران یا غیر ملک میں ہو سکتا ہے۔
انسانی سمگلنگ کی کئی شکلیں ہیں۔ ان میں جنسی اور مہمان نوازی کی صنعتوں، گھریلو ملازمین کے طور پر یا جبری شادیوں میں استحصال شامل ہے۔ متاثرین کو فیکٹریوں، بھکاریوں، گھریلو غلامی، تعمیراتی جگہوں، یا زرعی شعبے میں بغیر تنخواہ یا ناکافی تنخواہ کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، تشدد کے خوف اور اکثر غیر انسانی حالات میں رہتے ہیں۔
انسانی سمگلر اپنے متاثرین کو بھرتی کرنے کے لیے بہت سے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں، جس میں طاقت اور نفسیاتی ہیرا پھیری دونوں شامل ہیں۔ مجرم جسمانی طاقت، دھمکیوں یا نفسیاتی دباؤ کے ذریعے اپنا شکار حاصل کرتے ہیں۔ انسانوں کو ٹریفک کے لیے استعمال کیے جانے والے کچھ طریقوں میں فریب کی شکلیں شامل ہیں جیسے:
• لالچ اور رومانس
• نوکریوں کے جھوٹے اشتہار
• تعلیمی یا سفری مواقع کے بارے میں جھوٹ
• اغوا
• خاندان کے ذریعہ فروخت
• سابق غلاموں کے ذریعے بھرتی
انسانی اسمگلنگ کی علامات جسمانی، رویے، جذباتی اور حالاتی ہیں۔ دی گئی تمام علامات نہیں ہو رہی ہیں یا ہر صورت میں واضح ہیں۔ یکساں طور پر، ان واقعات میں سے ہر ایک کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسمگلنگ کا جرم ہے۔ یہ ان واقعات کا مجموعہ ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کوئی شخص اسمگلنگ کا شکار ہوا ہے۔
اسمگلنگ کے متاثرین عام طور پر تھکے ہوئے نظر آتے ہیں، ان کے پاس نامناسب لباس ہوتے ہیں تاکہ وہ بوڑھے، مہنگے مال، اور عام طور پر ان کی صحت کی خراب حالت ہو۔
متاثرین اکثر خوف، شرم، ناامیدی، عدم تحفظ، افسردگی یا اعتماد کی کمی محسوس کرتے ہیں۔ وہ الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں، اور ان میں پرتشدد دھماکے ہوتے ہیں۔
ایسی عملی نشانیاں ہیں جو اسمگلنگ کے معاملے کو پہچاننے میں مدد کرتی ہیں۔ متاثرین کے پاس پاسپورٹ یا کوئی دستاویزات نہیں ہیں، وہ ملکی زبان نہیں بولتے ہیں، فیصلے کرنے کی اجازت نہیں ہے، اکیلے کہیں بھی جانے کی اجازت نہیں ہے، اور اپنے پیسوں کو کنٹرول نہیں کرتے ہیں۔
تارکین وطن اور پناہ گزین بہت کمزور لوگ ہیں کیونکہ وہ غیر ملک میں ہیں۔ وہ ملک کی زبان نہیں بولتے۔ لہذا، زیادہ تر معاملات میں، وہ آسانی سے مناسب کام نہیں پا سکتے ہیں۔
سمگلر اپنے شکار کو پکڑنے کے لیے کئی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں کچھ مثالیں ہیں جہاں آپ اسمگلنگ کے معاملے کو پہچان سکتے ہیں:
• ایک والدین بچے کو بیچ رہے ہیں۔
• شکار کو اغوا کرنے والا مجرم
• خاندانی قرض ادا کرنے کے لیے غلام بنانا
• نوکری کے جھوٹے مواقع کے لیے بھرتی کرنا
• بیرون ملک سفر اور تعلیم حاصل کرنے کا جعلی موقع
• جھوٹی شادی کی پیشکش کرنا
• کسی گینگ میں حصہ لینے کا موقع فراہم کرنا، تحائف، رقم، خوراک وغیرہ کے تبادلے کے ساتھ غیر قانونی کام کرنے کے لیے کہنا۔
سری لنکا سے غیر قانونی طور پر کشتی کے ذریعے آسٹریلیا پہنچنے والے شخص نے بتایا کہ ’ہم میں سے ایک شخص بیمار ہوگیا تھا اور وہاں ادویات دستیاب نہیں تھیں۔ ہم میں سے کچھ لوگ اپنے ساتھ شراب لائے تھے۔ موت کے خوف سے بچنے کے لیے ہم شراب کے نشے میں دھت تھے شمالی سری لنکا میں دو بچوں کے والد کہتے ہیں کہ میں اپنی بیوی کے زیورات بیچ کر پیسے جمع کیے۔ ان پر بہت زیادہ قرض چڑھ چکا تھا کیونکہ انھوں نے بڑے سود پر قرض اٹھایا تھا۔
سمگلنگ کا مرکز
مغربی سری لنکا میں ساحلی شہر نیگومبو آسٹریلیا اور اٹلی کے لیے لوگوں کی سمگلنگ کا مرکز رہا ہے۔
نیگومبو میں ایک کشتی کے مالک نے بتایا کہ اس نے گذشتہ تین دہائیوں کے دوران سینکڑوں لوگوں کو آسٹریلیا اور اٹلی سمگل کیا۔ وہ فخر سے بتاتے ہیں کہ ’90 کی دہائی کے دوران میں نے 130 لوگ اٹلی سمگل کیے
اقوام متحدہ کی 2020 کی ٹریفکنگ اِن پرسنز کی عالمی رپورٹ کے مطابق 2018 میں 46 فیصد متاثرین خواتین اور 19 فیصد لڑکیاں تھیں۔ رپورٹ کے مطابق 20 فیصد متاثرین مرد تھے جبکہ 15 فیصد لڑکے تھے
وہ خود ان مسافروں کو نہیں ڈھونڈتے وہ کہتے ہیں کہ ’بروکر ایسے لوگ لاتے ہیں۔ جب وہ پیسوں کا پوچھتے ہیں تو ہم پانچ لاکھ روپے (موجودہ کرنسی ریٹ کے تحت قریب 1400 ڈالر) بتاتے ہیں۔ بروکر بھی لوگ ڈھونڈنے پر پانچ لاکھ روپے اپنے لیے رکھتے ہیں۔ پورے ملک سے بروکر ایسے 10 سے 15 لوگوں پر مشتمل گروہ بنا لیتے ہیں۔ اس طرح کل لوگوں کی تعداد قریب 50 ہوجاتی ہے۔ اس کاروبار میں سب سے زیادہ منافع بروکر کا ہوتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ہم کشتی کا کپتان ڈھونڈتے ہیں اور اس کی مدد کے لیے چار سے پانچ افراد کے عملے کا انتظام کرتے ہیں۔ ہم کشتی کو اسی کپتان کے نام رجسٹر کر دیتے ہیں تاکہ واپسی یا ٹریسنگ نہ ہوسکے۔ عملے کے لوگ باقی ٹیم کے ساتھ ساحل پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ایک یکطرفہ سفر ہے جس میں نہ صرف مسافر بلکہ کشتی کا عملہ بھی دوسرے ملک پناہ لینے کے مقصد سے جاتا ہے۔
سمگلرز نے کئی برسوں سے اٹلی کے لیے انسانی سمگلنگ مکمل طور پر روک دی ہے کیونکہ اس پر زیادہ خرچ آتا ہے اور تارکین وطن کی آمد پر سختیاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ سال قبل تک لوگوں کو آسٹریلیا سمگل کرنا آسان تھا لیکن اب یہ مشکل کام بن گیا ہے۔
سمگلرز کا کہنا ہے کہ ہمیں کوئی پچھتاوا نہیں کیونکہ یہ لوگ خود آتے ہیں اور ہمیں پیسے دیتے ہیں۔ وہ بہتر زندگی کے لیے خطرہ مول لیتے ہیں۔ کشتی کے مالک کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں کہ آیا وہ ساحل پر رُکے گی یا کسی حراستی مرکز جائے گی۔ انھیں پہلی ہی اس سفر کے خطرات کا علم ہوتا ہے۔‘
پہلے ہمارے پاس صرف مرد آیا کرتے تھے۔ لیکن اب مزید خاندان اور چھوٹے بچے سمگل ہونے کے پیسے دیتے ہیں۔
انسانی سمگلنگ کی وجوہات
آسٹریلیا جانے والے سری لنکن تارکین وطن کا ایک گروہ شمال مغربی انڈونیشیا میں کشتی ٹوٹنے کے بعد پھنس گیا ہے
مجبوری اور آگاہی سے لاعلمی زیادہ تر لوگوں کو سمگل ہونے کی طرف دھکیل دیتی ہے کیونکہ انھیں ترک وطن کے قانونی راستے معلوم نہیں ہوتے۔.
بروکر غریب اور مجبور خاندانوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ وہ آسٹریلیا جیسے ملکوں میں جا کر بہتر زندگی جی سکیں گے اور امیر ہوجائیں گے۔
سمگلر اکثر سمگل ہونے والوں سے کہتے ہیں کہ خاندان کے ہمراہ جانے قانونی طور پر فائدہ مند ہے۔ ’کشتیوں پر خاندانوں اور چھوٹے بچوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سمگلر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ کچھ ملکوں میں انسانی حقوق کے قوانین ایسے ہیں کہ اس سے فائدہ ہوتا ہے۔‘
سری لنکن بحریہ اور آسٹریلوی بارڈر فورس غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کرنے کے لیے ایک ساتھ کام کر رہے ہیں۔
’لوگوں کو ہمارے بارے میں دوسرے لوگوں سے پتا چلتا ہے۔ وہ ایسے لوگوں کے بارے میں سنتے ہیں جو بذریعہ کشتی آسٹریلیا گئے، ویزا ملا اور اب اچھے پیسے کما رہے ہیں۔
سری لنکن بحریہ
سری لنکن بحریہ کے مطابق رواں سال ایسے لوگوں کی تعداد بڑھی ہے جو بذیعہ کشتی سری لنکا جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جولائی 2022 تک 864 لوگ کشتی پر آسٹریلیا جاتے ہوئے پکڑے گئے جبکہ 15 کشتیاں ضبط کی گئیں۔
جبکہ چار کشتیوں پر 137 سری لنکن شہری، جن کی چار کشتیاں آسٹریلوی سرحد پر روکی گئیں، کو پروازوں سے ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔
بحریہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ 2020 میں کووڈ کی عالمی وبا کے دوران کوئی کشتی نہیں پکڑی گئی تھی۔
سری لنکن بحریہ کے مطابق 2021 اور 2022 میں کینیڈا جانے والی دو کشتیاں روکی گئی تھیں۔
انسانی اسمگلنگ کی روک تھام
معصوم لوگوں کو روزگار کا جھانسہ دے کر انسانی سمگلنگ میں ملوث عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔
لوگوں کو سمگلنگ کے بارے میں آگاہی دی جائے