فائزہ حسن
استاد گاڑی کی ہیڈ لائٹس کی مانند کام کرتے ہیں۔کہ جیسے گاڑی کی لائٹ کی بدولت اندھیری رات میں مسافر اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔استاد بھی اپنے شاگردوں کو ان کی منزلوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ والدین کے بعد استاد ایسی ہستی ہے جو خود سے زیادہ اپنے شاگردوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ ۔۔۔۔۔۔
استاد کی تربیت جادو کی وہ چھڑی ہے جو شاگرد کی زندگی بدل سکتی ہے۔ مشہور قول ہے کہ:
“استاد بادشاہ نہیں ہوتا مگر شاگرد کو بادشاہ بنا دیتا ہے”
لیکن میں اس بات کو کچھ اس طرح قلمبند کرتی ہو ں۔ کہ استاد بادشاہ ہوتا بھی ہے اور بادشاہ بناتا بھی ہے۔ ایک استاد بادشاہ تو اس دن بن جاتا ہے۔ جس دن وہ اپنے لبوں سے اپنے شاگردوں کو سکھانے کے لئے پہلا لفظ ادا کرتا ہے۔
سکندر اعظم نے کیا خوب کہا ہے کہ:
” میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا جبکہ میرا استاد مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔میرے باپ نے میرے جسم کی پرورش کی جبکہ میرے اساتذہ نے میری روح کی پرورش کی۔
عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ اُستاد کو روحانی باپ کا درجہ ملا۔
لہذا اپنے مقام کو سمجھتے ہوئے ہمیں اپنے کام ایمانداری، وفاداری، خلوص اور صدق دل سے کرنے ہوں گے۔صرف وقت گزاری کے لیے نہیں۔
تب تک تگ ودو کرتے رہے جب تک خود مطمئن نہ ہو جائے کہ آپ کو جو کام ملا وہ پورے صدق دل اور ایمانداری سے آپ نے کیا۔
یقین مانے آپ کی سیٹسفیکشن آپ کی زندگی سے بہت سے غموں کو دور کر دےگی۔