کچھ نے آنکھیں کچھ نے چہرہ دیکھا ہے

توصیف تابش

کچھ نے آنکھیں کچھ نے چہرہ دیکھا ہے
سب نے تجھ کو تھوڑا تھوڑا دیکھا ہے

تم پر پیاس کے معنی کھلنے والے نہیں
تم نے پانی پی کر دریا دیکھا ہے

جن ہاتھوں کو چومنے آ جاتے تھے لوگ
آج انہیں ہاتھوں میں کاسہ دیکھا ہے

روتی آنکھیں یہ سن کر خاموش ہوئیں
ملبے میں اک شخص کو زندہ دیکھا ہے

بابا بولا میری قسمت اچھی ہے
اس نے شاید ہاتھ تمہارا دیکھا ہے

لگتا ہے میں پیاس سے مرنے والا ہوں
میں نے کل شب خواب میں صحرا دیکھا ہے

اندھی دنیا کو میں کیسے سمجھاؤں
ان آنکھوں سے میں نے کیا کیا دیکھا ہے

قیدی رات کو بھاگنے والا ہے تابشؔ
اس نے خواب میں خفیہ رستہ دیکھا ہے

Scroll to Top