۔۔۔تحریر: سدرہ قیوم (حافظ آ باد)۔۔۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے ان سے کہا کہ:۔
آپ اس شخص کو زندہ کریں جس نےحضرت نوح علیہ السلام
کی کشتی کو دیکھا ہو تاکہ اس سے کشتی کے متعلق کے پوچھا
جاسکے ۔یہ بات سن کر آپ علیہ السلام اپنے ماننے والے لوگوں کےہمراہ باہر چلےگئے یہاں تک کہ
ایک نشیبی علاقے میں پہنچ گئے وہاں پہنچ کر آپ نے زمین سے مٹی اٹھائی اور کہا۔
“یہ حام بن نوح علیہ السلام کی قبر ہے”۔اس کے بعد انہوں نے اس
نشیبی جگہ پر اپنا عصا مارا اور کہا۔
“اللّٰه کے حکم سے کھڑا ہوجا”
یہ کہتے ہی وہ نشیبی علاقہ پھٹا اور اس میں سےایک بوڑھا شخص اپنے سر سے مٹی جھاڑتے ہوئے اٹھا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے
ان سے پوچھا۔
“تمہارا انتقال بڑھاپے کی عمر میں ہوا تھا”؟
انہوں نے جواب دیا ۔”نہیں میرا
انتقال جوانی میں ہوا تھا”۔
میں نے یہ گمان کیا کہ اب قیامت قائم ہو گئی ہے قیامت
کے ڈر سے میرے سر کے بال سفید ہو گئے “
جو انسان اس دنیا سے چلا جاتا ہے اس کے لیے قیامت ہی قائم
ہو تی ہے آج ہم ہیں کہ لوگوں کے دل توڑتے ہیں ، ان کا حق چھین لیتے ہیں بس اپنی ذات کے مفادات میں پڑے ہیں لیکن قیامت کا ذراخوف نہیں رکھتے یہ ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے کہ
جو لوگ انمو ل ہیں ان کی کوئی
قدر نہیں اور جو منافق بچھو ہیں وہ دوسروں کی زندگیاں تباہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ
لوگوں نے اس زندگی کو ہمیشہ کی زندگی سمجھ لیا ہے لیکن
سب نے اپنی زندگی گزار کے چلے ہی جانا ہے پر لوگوں کی
نا انصافیاں انسان کو آ خری سانس تک کانٹے کی طرح چبھتی ہیں ۔کاش !لوگ قیامت کا خوف رکھتے ۔تو اس دنیا کے
آ دھے غم ختم ہوجاتے ۔