شارف علی
پنجاب یونیورسٹی لاہور
خواتین کسی بھی قوم کی تعمیروترقی میں اہم ترین حیثیت رکھتی ہے۔ وہ ان نسلوں کی امین ہیں،جنہوں نےملک کواستحکام بخشنا اور انہیں اسے اوجِ کمال پر لے کر جانا ہے۔ خواتین مستقل مزاج ہوتی ہیں اور اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی عہدہ برآ ہونا جانتی ہیں۔ گھر میں اور گھر سے باہر وہ اپنی شخصیت کے بھرپور اظہار میں کامیاب رہتی ہیں۔ پاکستان میں ہر شعبہء حیات میں وہ اپنی صلاحیتوں اور کارکردگی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔ میڈیا پر جس تیزی سے انہوں نے اپنا کردار سنبھالا ہے وہ انہی کا خاصہ ہے۔ تعلیمی درس گاہ کے کمرے سے لے کرایوانِ سیاست تک ہماری پُرعزم خواتین نے اپنے نام روشن کئے ہیں۔
پاکستان میں ورکنگ ویمنز کی تعداد
پاکستان کی تقریباً 49اعشاریہ2 فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔جن میں سے 18اعشاریہ78فیصد خواتین ورکنگ ویمنز ہیں۔ یہ خواتین آئی ٹی، فیشن، تعلیم، آن لائن کاروبار اور دیگر میں تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے پاکستان کا نام روشن کررہی ہیں۔ پاکستان میں کچھ فلاحی ادارے ایسے ہیں جن کی منتظم خواتین ہیں۔ یہ خواتین اِس میدان میں نئے آنے والوں کو حوصلہ دیتیں اور اْن کی ہمت بندھاتی ہیں۔ کوئی بھی سماجی و معاشرتی مسئلہ ہو ہماری درمند خواتین آگے بڑھتی ہیں اور پوری مہارت سے اس کا مداوا کرتی ہیں۔ غریب بچیوں کی شادی کی بات ہو، نادار بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ہو ہماری مخیر خواتین خوشی کے ساتھ تمام معاملات کو سلجھاتی ہیں۔ ایسے بے شمار واقعات کی میں عینی شاہد ہوں اور ان خواتین کے حق میں دعا گو رہتی ہوں۔ میں خود بھی چونکہ ایک فلاحی تنظیم سے وابستہ رہی ہوں، اس لئے جانتی ہوں کہ ہماری نیک دل خواتین غریبی کی چادر پر کس طرح اپنی سخاوت کے سلمیٰ ستارے ٹانکتی ہیں
خواتین کی ترقی میں حائل رکاوٹیں
پاکستان میں خواتین نے جہاں ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنا نام کمایا ہے ، وہیں خواتین کی کثیر تعداد معاشی تنگدستی کا شکار بھی ہے ۔ حقوقِ آزادیِ نسواں پر آواز بلند کرنے والوں نے عورت کی آزادی کو محض لباس کی حد تک محدود کر دیا ہے اور عورت کے اصل مسائل پر پردہ پڑ چکا ہے ۔ گھریلو ناچاقی ، زچگی کی خراب صورتحال ، حفظانِ صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی ، تعلیم کی کمی ، غیرت کے نام پہ قتل ، فیکٹری مالکان کا کم اجرت دینا ، یہ وہ تمام مسائل ہیں جن کا آج کی پاکستانی عورت سامنا کر رہی ہے ۔ اور یہ تمام تر مسائل کی جڑ عورت کا معاشی طور پہ محتاج ہونا ہے۔