از قلم: سعیدہ قمر (گوجرہ)
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ تحریک آزادی کو عوامی تحریک بنانے والے قائد اعظم محمد علی جناح ہی تھے۔ قائد اعظم نے آزاد مملکت کا قیام فرما کر ہم پر احسان عظیم کیا ہے ۔ بلاشبہ قائد اعظم ہمارے محسن ہیں اور محسنوں کو ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
“لا یشکر اللہ من لا یشکر الناس”
اے قائد اعظم! تیرا احسان ہے احسان
کراچی کو قائد کی جائے پیدائش مانا جاتا ہے مگر حیدرآباد سندھ یونیورسٹی سے ملحق انسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی کے محققین نے بعد تحقیق یہ بتایا کہ قائد اعظم ۲۵ دسمبر ۱۸۷۶ء کو ٹھٹھہ کے قریب ایک مقام “جرک” میں پیدا ہوئے ۔ (لیکچر اسرار احمد مرحوم)
آپ کے والد پونجا جناح چمڑے کے کاروبار سے منسلک تھے ۔ جناح کا بچپن اور تعلیم و تربیت ان کے دیگر ہم عمروں سے زیادہ مختلف نہ تھا تاہم جناح شروع ہی سے اپنی نفاست پسندی ، جرآت ، عزم و ہمت اور قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر سب میں ممتاز نظر آتے تھے۔ میٹرک کے بعد جب جناح ابھی سولہ سال کے تھے بزنس ایڈمنسٹریشن کی تربیت کے لیے لندن گئے مگر وہاں جا کر یہ تربیت حاصل کرنے کی بجائے وکیل بننے کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کی ۔ بیس برس کی عمر میں وکالت کی ڈگری لے کر سب سے کم عمر ہندوستانی بیرسٹر بن گئے ۔ ۱۸۹۶ء میں ہندوستان واپس آ کر پہلے کراچی اور پھر بمبئی میں پریکٹس شروع کی ۔ آغاز میں حالات کچھ مخدوش رہے مگر جناح نے اپنی ذہانت اور محنت و مشقت سے ممتاز مقام حاصل کر لیا۔ ایک وکیل کی حیثیت سے ہم پیشہ افراد میں انہیں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ممتاز وکیل سر چمن لال سیتل واڈ نے کہا ” صورت حال کچھ بھی ہو جناح کبھی جج یا مخالف وکیل سے متاثر یا مرعوب نہیں ہوتے تھے۔”
سیاسی سفر کا آغاز صدرِ کانگریس دادا بھائی نوروجی کے سیکرٹری کی حیثیت سے کیا ۔پھر کانگریس کی رکنیت اختیار کی اور ۱۹۱۳ء میں مولانا محمد علی جوہر کے اصرار پر مسلم لیگ میں شامل ہوئے مگر کانگریس سے مستعفی نہ ہوئے ۔ ۱۹۲۰ء تک دونوں جماعتوں کے رکن رہے اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوششیں کرتے رہے ۔ انہی کوششوں کی وجہ سے”ہندو مسلم اتحاد کے سفیر ” اور “Prophet of Love” کہلائے ۔
۱۹۲۰ء میں تحریک خلافت اس زور سے اٹھی کہ گاندھی بھی مسلمانوں کے ساتھ آ کھڑا ہوا۔ مگر جب بقول اقبال رح
√ چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
تو جہاں خلافت کے خاتمے کا دھچکا ہندوستانی مسلمانوں کو لگا وہیں ہندؤوں کی عصبیت بھی ظاہر ہو گئی ۔جناح اس کے بعد کانگریس سے مستعفی ہو گئے ۔ جناح میں ایک تبدیلی اس وقت دکھائی دی جب ۱۹۲۸ء میں نہرو رپورٹ شائع ہوئی جس نے مسلمانوں پر واضح کر دیا کہ ہندو انہیں کسی درجے میں بھی کوئی حیثیت دینے کو تیار نہیں ۔ اس کے جواب میں جناح کے چودہ نکات خالصتاً مسلم نقطہء نظر کے عکاس تھے ۔ وہی جناح جو ایک عرصہ ہندو مسلم اتحاد کے خواہاں رہے اب ایک مسلمہ مسلم رہنما کی حیثیت سے سامنے آئے ۔ ہندوؤں کی عیاری اور مسلمانوں کی سیاسی غفلت نے جناح کو ہندوستانیوں سے مایوس کر دیا اور وہ دلگرفتہ وطن چھوڑ کر انگلستان چلے گئے۔
اس نازک دور میں علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ نے احیائے اسلام کی ضروت کو سمجھا اور اپنے کلام کے ذریعے مسلمانانِ ہند میں جوش و جذبہ پیدا کیا۔ مسلم لیگ کی صدارت کی اور ۱۹۳۲ء کی گول میز کانفرنس کے لیے لندن گئے تو جناح سے خاص طور پر ملاقات کی اور خطوط سے مسلسل رابطہ رکھا ۔ ان خطوط میں جو انداز علامہ نے اختیار کیا اس سے پتا چلتا ہے کہ علامہ کو جناح کی قیادت پر کس درجہ بھروسہ تھا ۔ آخر کار علامہ کی کوششیں رنگ لائیں اور ۱۹۳۴ء میں جناح کی ہندوستان واپسی ہوئی اور انہیں مسلم لیگ کا تا حیات صدر بنا دیا گیا ۔ جناح نے اک نئے جذبے اور ولولے سے تحریک کا آغاز کیا ۔
اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تا خاک بخارا و سمرقند
یہ تھے وہ حالات جنہوں نے “جناح” کو “قائد اعظم” بنایا۔ ۳۷ء سے ۴۷ء تک کے عرصہ میں یہ قائد اعظم کی عظیم قیادت کا ہی نتیجہ تھا کہ مسلم لیگ جو آغاز میں نوابوں اور نواب زادوں کی جماعت تھی اب خواص سے نکل کر عوام کی جماعت بن گئی ۔ قائد اعظم کے خلوص اور ان کی عوام سے خیر خواہی ہی تھی کہ انگریزی سے ناواقف عوام کے دل بھی اپنے قائد کی ہر پکار پر لبیک کہتے تھے۔ ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں پورے ہندوستان میں مسلم لیگ کی کامیابی بجا طور پر قائد اعظم اور مسلم لیگ کی عوامی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔
قائد اعظم کی اس احسان کی قدر شناسی من حیث القوم ہم تبھی ادا کر سکتے ہیں جب ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو فرموداتِ قائد کی روشنی میں اسلام کا مرکز بنائیں ۔ قائد اعظم نے اپنے خطابات میں جابجا برملا کہا کہ ہمارا نظام ، ہمارا قانون اور ہماری ہر شے اسلام کے مطابق ہوگی ۔ برطانوی پارلیمنٹ کا دس رکنی وفد ۴۶ء میں ہندوستان آیا تھا ۔ ان میں سے ایک رکن اپنی کتاب “My Impression of India” میں قائد کے بارے یوں رقم طراز ہے
” Mr. Jinnah is a sword of Islam resting in a secular scabbard.”
غیر مسلم ان کو اسلام کی تلوار کہہ رہے اور ہمارے سیکولر ازم کے دیوانے انہیں سیکولر ثابت کر کے پاکستان کے قیام کے مقاصد کے حصول میں آڑ بن رہے ۔ ۱۱ جنوری ۱۹۳۸ء کو قائد اعظم نے بہار میں مسلم لیگ کا جھنڈا لہرایا اور فرمایا
“Many people misunderstand us when we talk of Islam particularly our Hindu friends. When we say this flag is the flag of Islam they think we are introducing religion into politics A FACT OF WHICH WE ARE PROUD. Islam gives us complete code.”
۶ مارچ ۱۹۴۶ء
” Let us go back to our Holy Book The QURAN. Let us go back to the HADITH and the great traditions of Islam which have everything in them for our guidance. If we correctly interpret them and follow our great Holy Book The QURAN.”
بحوالہ کتابچہ
“Quaid e Azam’s speaks his vision of PAKISTAN “
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم! تیرا احسان ہے احسان
ہر سمت مسلمانوں پہ چھائی تھی تباہی
ملک اپنا تھا اور غیروں کے ہاتھوں میں تھی شاہی
ایسے میں اٹھا دین محمد کا سپاہی
اور نعرہ تکبیر سے دی تو نے گواہی
اسلام کا جھنڈا لیے آیا سر میدان
اے قائد اعظم! تیرا احسان ہے احسان