شیباحنیف مرزا
“میں نے تو بیاہ دی تھی۔ہاجرہ نے ٹھنڈی سانس بھری مجھے کیا پتہ تھا پھر سے میرے سر آ بیٹھے گی”۔ کونے میں سہمی سیمٹی نازیہ کو دیکھ کرہنکارا بھرا۔
“ہماری اماں تو کہتی تھی: گھر میں چھوٹی موٹی باتیں ہو جاتی ہیں۔برداشت کرنا سیکھیں!باجی نازیہ بڑی جذباتی ہیں ویسے۔پورا پورا مقابلہ کرتی تھی ماجد بھائی سے۔”فوزیہ نے چوٹ لگائی۔
وہ چپ چاپ سب سن رہی تھی ایک ایک لفظ اس کی سماعتوں سے ٹکرا رہا تھا۔
“طلاق یافتہ! اس کے ہونٹوں نے جنبش دی تو آنکھیں لبالب بھر گئیں۔میں ایک طلاق یافتہ ہوں۔اب کے اس نےہونٹ بھینچ لیے۔میں ایک طلاق یافتہ ہوں۔چپ چاپ سلگتی ہوئی وہ کسی سے کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھی شاید کوئی اسے سننا بھی نہیں چاہتا تھا اور سنتا بھی کیوں وہ کوئی سکالر تو نہ تھی بلکہ دھتکاری ہوئی بدنصیب عورت تھی اس کا تو خاوند کے ساتھ رہنا بہت مشکل تھا اور اس معاشرے میں خاوند کے بغیر کیسے رہے گی؟وہ سوچ میں ڈوبی۔”اچھا اللہ! تو نے کچھ بہتر ہی سوچا ہوگا۔اس نے اپنا سر دیوار سے ٹیک لیا۔تیرے ہر کام میں بہتری ہے۔میری ہی غلطی ہے اب کے وہ اعترافِ جرم کر رہی تھی۔مجھے ہی نہیں گھر بسانا آیا۔میں ہی اچھی بیوی نہیں بن سکی۔میں ہی نہیں ماجد کا دل جیت سکی۔وہ زاروقطار رو دی۔اللہ تو تو دلوں میں رہتا ہے تو کسی طرح اس آدمی کے دل میں میرے لیے پیار ڈال دیتا مگر تو نے کیوں مجھے دکھوں میں رول دیا؟ وہ اللہ سے شکوہ کناں ہوئی۔”
اب کیا یہ ساری زندگی ہمارے سر ہی بیٹھی رہے گی؟” چھوٹے قدیر کی آواز سنائی دی۔
” تو اور کیا اس کی تو پہلے ہی شادی بڑی مشکل سے ہوئی تھی۔معمولی سی شکل و صورت والی تو ہے کون سی حور پری ہے جو دوسرا رشتہ دوڑا دوڑا چلا آئے گا۔” آپا تبسم ہاتھ نچاتے ہوئے بولی۔
“یار! یہ بڑا مسئلہ ہے میں اب چھوٹی بچیوں کے رشتے دیکھوں یا یہ جو طلاق کا داغ لگوا بیٹھی ہے اس کے؟ ابا میاں نے نخوست سے سر جھٹکا۔
“ہماری تو قسمت ہی ماڑی ہے میاں۔اللہ اللہ کر کے رخصت کی تھی…یہ کرموں جھلی آدھمکی پھر سے”۔ اماں کا اس سے خدا واسطے کا بیر تھا۔
“سن رہی ہو ساری باتیں ؟ آپا کلثوم اس کے سامنے آکھڑی ہوئی۔تمہیں شرم نہیں آرہی اپنے وجود پہ؟ اپنے یہاں ہونے پہ؟ آخر کس بل بوتے پہ تم ماجد سے طلاق لے آئی ہو؟ تمہارے کون سے بھائی کی ملیں چلتی تھیں جو تمہیں کھلائے گا؟ دو کمرے کا مکان ہے باپ, بھائی کہاں رہیں گے اور تمہیں کہاں رکھے گے؟ تمہیں زرا خیال نہیں آیا چلی آئی منہ اٹھا کر۔” آپا اس پہ آگ برسا رہی تھی۔
“میں کیوں چلی آئی؟ وہ لہو رنگ آنکھیں لیے پھر سے ایک بار سوچ میں ڈوبی۔وہ مجھے مارتا تھا۔وہ مجھے بہت مارتا تھا۔ اس نے میرے کپڑے پھاڑ دئیے۔میں نیچے زمین پہ گری ہوئی تھی اور وہ مجھے اپنے قدموں تلے روند رہاتھا۔شدتِ کرب کی تاب نہ لاتے ہوئے اس نے آنکھیں موند لیں۔میں اگر وہاں سے نہ آتی تو شاید میں خودکشی کر لیتی یا پاگل ہو جاتی۔” وہ خود سے دیوانہ وار باتیں کر رہی تھیں۔اماں, ابا, بہن, بھائی سب اس کے سگے تھے بس ان کا پیار پرایا ہوگیا تھا۔وہ کہتے تھے: سب کے شوہر ایسے ہی ہوتے ہیں سب لڑکیاں برداشت کرتی ہیں۔تم بھی برداشت کرو! اور بس یہی حکم عدولی ہوئی۔ جس کی سزا اسے مل رہی تھی۔کیا کروں میں؟ کہاں جاؤں؟ خاموش سسکیاں اس کے اندر دم توڑنے لگیں۔۔اے اللہ مجھے پاگل ہونے سے بچالے! اللہ میری مدد کر! اللہ میرا کوئی سبب لگا دے۔اللہ مجھ پہ رحم کھا۔ وہ اللہ کے حضور فریاد رساں ہوئی۔”
“ساجدہ پیانو کی فیکٹری میں کام کرتی ہے اس سے کہہ کر اسے بھی وہاں لگوا دوں گا۔” ابا میاں نے آستین جھاڑتے ہوئے کہا۔
“کیا کام کرتی ہے ساجدہ ؟” اماں حیرت سے پوچھنے لگی۔
“یہ تو اب وہی بتائے گی کیا کام کرتی ہے بس دعا کر تیری اس منحوس بیٹی کو کوئی ملازمت پہ رکھ لے۔ اس کی تو شکل بھی کسی نوکرانی سے نہیں ملتی عجب سی پھٹکار پڑی ہے اس پہ۔” ابا میاں بے زار ہوئے اور وہ اپنی خراماں نصیبی پہ خون کے آنسو رو دی۔ “مجھ سے واقعی غلط فیصلہ ہوگیا۔اب مجھے دنیا بھر کی باتیں سننا پڑے گی اور بے دام کی غلام بن کر جینا پڑے گا”۔سچ ہی کہتے ہیں وقت اچھا تو سب ہی اچھے اور اگر برا وقت آجائے تو اچھے بھی برے بن جاتے ہیں۔ خدا بس کسی کو برا وقت نہ دکھائیں۔اس کی خاموش سسکیاں دعا میں بدل رہی تھی:.