جائے پناہ

شیباحنیف

ہم سب دوست اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے اور روزمرہ کی آپسی گفتگو جاری تھی کہ وہ تیز قدموں سے چلتی ہوئی ہمارے پاس آ پہنچی۔
“کیا ہو گیا ہے۔”
اس کے چہرے پہ اڑتی ہوائیاں, بکھرے بال, تھکے پاؤں ہمیں بہت کچھ بتلا رہے تھے وہ ہمارے پاس پڑے بڑے سے کالے پتھر پہ آ بیٹھی اور اپنی سانسوں کی بے ترتیب رفتار درست کرنے لگی جب کہ ہم چاروں حیرت و پریشانی کی ملی جلی کیفیات سے دوچار اسے دیکھنے لگے:۔
“سب خیریت تو ہے ناں؟” سہارا بولا
“اب کچھ اور تو نہیں ہوگیا ہے ؟” وقت بے چین ہوا
” تم اتنی گھبرائی ہوئی سی کیوں لگ رہی ہوں؟” امید اس کا سر سہلانے لگی۔
وہ سر جھکائے خاموش بیٹھی تھی۔ بھانت بھانت کی بولیوں پہ چونک کر کھوجتی نگاہوں سے ہمیں دیکھتے ہوئی بولی۔
“کچھ نہیں ہوا ہے … ابھی تک کچھ بھی تو نہیں ہوا ہے… ابھی تو اور لاشیں گریں گی … اور خون بہے گا۔ ابھی تلک تو ہم زندہ ہیں, ابھی تو ہمیں مرنا ہے … اور ہم بھی چن چن کر مار دئیے جائیں گے۔ جیسے عباد مرا, تبسم اجڑی, روشنی بجھا دی گئی, چراغ گل کر دئیے گئے …” وہ اپنے عزیز و اقارب کا نام لیتے ہوئے روہانسی ہوئی ۔آنسوؤں کی لڑی اس کی آنکھوں سے جاری تھی اور وہ شدتِ کرب سے اپنے ہونٹ کچلنے لگی جب کہ ہم سب سر جھکائے اس کی سن رہے تھے اور اس کا ایک ایک لفظ سچ پہ مبنی تھا ۔ کل ہی کی تو بات لگتی ہے۔ جب یہودیوں کی گولہ باری نے کتنے نہتے فلسطینیوں کی جان لے لی تھی۔ کچھ دیر کے لیے ہمارے درمیاں خاموشی چھا گئی اور اس خاموشی کو ہماری سسکیاں توڑنے لگی۔
“صدیوں سے یہی تو ہوتا چلا آیا ہے اور یہی ہوتا چلا آئے گا۔ ” غزہ نے اپنا سر اپنے دونوں ہاتھوں کی گرفت میں لیا۔
“فکر مت کرو! سب ٹھیک ہو جائے گا۔”امید نے اسے آگے بڑھ کر تسلی دینی چاہی اور اس کے کندھے پہ اپنا ہاتھ رکھا تو اس نے فوراً سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
“جھوٹ بولتے ہو تم, تم لوگ سارے کے سارے جھوٹے ہو, فریبی ہو, کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔” وہ سخت دل گرفتگی کے عالم میں تھی۔
” صدیوں سے یہی سنتی آئی ہوں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا مگر … کچھ نہیں بدلا۔” اس نے نفی میں گردن ہلائی اور اپنے پھٹے آستین سے اپنی آنکھیں رگڑ ڈالی۔
“وہ لوگ آئے تھے۔ انہوں نے میرے بے قصور , نہتے بھائی کو گولیوں سے بھون ڈالا ۔ کیا کیا تم لوگوں نے ؟ کوئی ایک لفظ تک نہیں بولا۔ سب کو اپنی جان کے لالے پڑگئے ۔ بزدلوں کی طرح اپنی اپنی جان بچا کر دوڑے۔وہ پتھر سے اٹھ کھڑی ہوئی اور دل شکستہ بولی۔
” تسلی دینا آسان ہے مگر جس پہ قیامت گزر رہی ہوتی ہے ناں ۔ اسے ہی پتہ ہوتا ہے کہ قیامت کی سختی کیسی ہے؟” اس کے الفاظ ہماری سماعتوں سے ٹکرائے تو ہم سب نے اپنی نظریں جھکا لیں۔ جب کہ وہ سختی سے اپنے ہونٹ بھینچتے ہوئے بولی۔
” تم لوگوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔ بس ہماری قسمت میں ہی دکھ تھا۔” وہ دل گرفتگی سے کہتی ہوئی دو قدم آگے بڑھی ہی تھی کہ رنج بھاگتا بھاگتا اس کے پاس آ پہنچا اور اس کے آگے بڑھتے قدم رک گئے۔
“غضب ہو گیا غزہ! غضب ہو گیا۔” رنج اپنے سر پہ ہاتھ مارتے ہوئے اس سے مخاطب تھا۔
“اب کون سی نئی آفت آگئی ہے ؟” میں نے دل ہی دل میں سوچا جب کہ غزہ سمیت ہم سب کی نظریں رنج پہ مرکوز تھیں۔
“وہ تمہاری بہن خوشی کو اٹھا کر لے گئے ہیں ۔ تمہاری ماں بہت جھٹ پٹائی مگر ظالموں نے ایک نہ سنی اور خوشی … “
رنج کی آواز اسے اندھیروں میں لے گئی۔ وہ تپتی زمین پہ ڈھے گئی جب کہ ہم سب بھی گھٹنوں کے بل جھک گئے۔
“اب کیا ہوگا؟” وقت سوچ میں پڑ گیا۔
“مصیبت کی گھڑی ہے۔یہ بھی گزر جائے گی۔” امید نے سر اٹھایا۔
“نہیں گزرے گی۔ یہ مصیبتیں, یہ ازیتیں ہمیں یا تو پاگل کر دیں گی یا ہماری جان لے کر ہی چھوڑے گی۔ یہ جلد گزرنے والی نہیں ہیں۔” منور صورت حال کی نزاکت بھانپ کر بولا۔
” تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟”
سب نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا کسی کے پاس کسی بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔
“ہم سب کو متحد ہونا پڑے گا۔ یک جان ہو کر لڑنا پڑے گا۔ اتفاق میں ہی برکت ہے۔ اور نفاق ٹوٹ پھوٹ کا شکار بنا دیتا ہے۔ سب اکٹھے ہو جاؤ! کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔اکیلے رہیں گے تو مارے جائیں گے۔ نہیں بچیں گے۔ چلو میرے ساتھ!”
اس نے پتھریلی زمین سے پتھر اٹھا کر اپنے دوپٹے میں سمیٹے جب کہ رنج, وقت, انتظار , امید نے بھی اپنے اپنے ہاتھوں میں پتھر بھرے۔ اور ناتواں قدموں سے بڑے دشمنوں کا مقابل کرنے چل پڑے۔
“ہم اپنے آخری سانس تک تیری آزادی کے لیے دشمن سے لڑتے رہیں گے ۔ یہاں تک کہ ہمیں موت آجائے ۔ اے سر زمین فلسطین! ہم تجھے چھوڑ کر کہاں جائیں؟”
تیرے سوا ہماری کوئی جائے پناہ نہیں ہے:۔
مسجدِ اقصی کی طرف جاتے ہوئے وہ سب دوست یک زبان کہہ رہے تھے۔

Scroll to Top