وحشی انسان اور پیسہ

فائزہ حسن
سیالکوٹ

ہر روز ہمارے معاشرے میں دل کو دہلا دینے والے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ان میں سے ایسا ہی ایک واقعہ آج میری نظروں کے سامنے سے گزرا ۔ کچھ وحشی درندے اور ایک عام انسان دیکھا ۔ایک ایسا شخص دیکھا جو صبح کے وقت اپنے گھر سے اپنی بیوی بچوں کے لئے اپنی بہن بھائیوں والدین کے لئے رزق کمانے کی تلاش میں نکلتا ہے ۔مگر گھر سے نکلنے والے اس شخص کو اس چیز کی خبر نہیں ہوتی کہ وہ گھر واپس بھی آئے گا کہ نہیں ۔وہ بے بس انسان روزی کمانے کی خاطر رات تک کام کرتا ہے ۔اور گھر کی طرف لوٹنے کا ارادہ کرتا ہے ۔کہ آچانک سے اس کے سامنے دو موٹر سائیکل سوار وحشی درندے آتے ہیں ۔اور اس کے مال کو لوٹنا چاہتے ہیں اس کے پاس موجود پیسوں کو کینچنا چاہتے ہیں ۔جب وہ ان وحشی درندوں کو اپنی محنت کی کمائی ہوئی روزی دینے سے انکار کرتا ہے ۔تو وحشی درندے اس کو برسٹ (گولیاں)مار کر موقع پر ہی ختم کر دیتے ہیں ۔پیسہ انسان کو جانور بنا دیتا ہے ۔دنیا میں خدا کا نائب وحشی درندے کی صورت اختیار کر کر لیتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ ۔کیا انسان کا ضمیر مر چکا ہے ؟کیا ہم میں احساس باقی نہیں رہا ؟کیوں ہم انسانیت سے محبت نہیں کرتے ؟کیوں ہم ان چیزوں کے پیچھے بھاگتے ہیں جو کچھ وقت کے لئے سکون دے ؟جو کچھ وقت کی لذت دے۔ جو کچھ وقت کی ضرورت کو پورا کرے۔ہم انسانوں کو کیوں اہمیت نہیں دیتے ؟کیا پیسہ ہی سب کچھ ہے ؟میرے خیال میں نہیں ۔کیونکہ ہم پیسوں سے ہر چیز خرید سکتے ہیں مگر دلی سکون نہیں اطمینان نہیں ۔آپ جانتے ہیں کہ ہمارا ضمیر ہمارا سب سے اچھا دوست ہے ۔اگر ہمارا ضمیر زندہ رہے تو ہم اپنے ہر برے اور اچھے کام کو جان سکتے ہیں ۔
کیا گزر رہی ہوں گی اس گھر پہ آج جہاں سے صبح ایک شخص صحیح سلامت گھر سے نکلتا ہے۔اور رات کو اس کے دروازے پر اس کی لاش پہنچتی ہے۔اس کے ماں باپ کس درد میں ہوں گے۔اس کی اولاد اس کی بیوی اس کے عزیزواقارب کس قدر صدمے میں ہوں گے ۔وہ وحشی درندے جو مال لوٹنے کی غرض سے آئے تھے۔ وہ بھی انسان ہی تھے۔ یا انسان کہلانے کے لائق بھی تھے کہ نہیں ؟اگر انسان اپنی حقیقت کو جان لے نا تو وہ ہر برے کام سے بچنے کی مکمل کوشش کرے گا ۔مگر یہی تو المیہ ہے کہ انسان خود کو پہچان ہی نہیں پاتا ۔اپنی حقیقت سے واقف ہی نہیں ۔وہ خود کو محسوس ہی نہیں کر پاتا کہ آخر وہ ہے کیا ۔اس کی حقیقت کیا ہے۔ اور وہ کر کیا رہا ہے ۔خدارا انسانیت سے محبت کریں ۔ظلم تو یہ ہے کہ انسان ہی انسانوں کے دشمن ہیں ۔کبھی سوچوں تو صحیح کہ سب سے افضل امت میں پیدا کئے گئے ہو۔خود میں اور جانور میں فرق تو رہنے دو ۔ آج اس گھر سے جنازہ ہی نہیں اٹھے گا ۔اس گھر سے اس کے ساتھ وابستہ خوشیاں بھی اٹھ جائیں گی۔جو اس کے بچوں کی اپنے باپ کے ساتھ تھی جو بیوی کی شوہر کے ساتھ تھی۔جو والدین کی اپنے بیٹے کے ساتھ تھی ۔جو بہن بھائیوں کی بھائی کے ساتھ تھی۔ اے انسان کیا تمہیں ڈر نہیں لگتا ؟تم ڈرتے نہیں ہو کہ جو تم دوسروں کے ساتھ کرتے ہو وہ تمہارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔کیوں اپنی رفتار کو بہت تیز سمجھتے ہوں کہ کسی کے ہاتھ نہیں آؤ گے ۔ کیا پیسہ انسان کو اتنی خوشی دیتا ہے؟ کہ وہ اس کی خاطر دوسرے انسان کو مار دے۔
بدقسمتی سے آج ہم اسی پیسے میں اس قدر ڈوب چکے ہیں۔کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں رہا کہ ہم زندگی جیسی عظیم نعمت کو کس قدر بے فکری اور کس قدر ناشکری سے اپنے ہاتھوں سے ضائع کر رہے ہیں۔مال و دولت اور مادی اشیاء ہماری زندگی کا محور و مرکز ہے ۔ہم اپنی عقل اور شعور کو انسانیت کی تعمیر کی بجائے تخریب پر استعمال کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ہمارے رویے ہماری سوچیں دن بہ دن کس قدر سفاکانا اور ظالمانہ ہوتی جارہی ہیں کہ ہمیں احساس تک نہیں ہو رہا ۔
بقول شاعر :-
دھجیاں اڑنے لگی انسانیت کی چار سو
دل درندہ ہو گیا انسان پتھریلے ہوئے
خدارا انسانیت کی قدر کیجئے ان کے بغیر خوشی اور غم بے معنی ہیں ۔زندہ اور باشعور انسانوں کی طرح زندگی گزارے ۔مثبت سوچیں مثبت رہے ہیں خود کو بامقصد بنائیں ۔انسانیت کو محبت دے کے تو دیکھیں ۔دوسروں کا احترام کر کے تو دیکھیں ۔دوسروں کے کام تو آئے۔کچھ وقت کے لئے برداشت کر کے تو دیکھیں ۔زندگی بہت مختصر ہے پل کا پتا نہیں ۔اس کو ضائع نہ کریں ۔روز مسکرا کر دیکھیں ۔ضروری نہیں کہ اداس لبوں پہ مسکراہٹ کی وجہ صرف عشق و محبت ہو۔ماں کی گود ، باپ کی آواز ،کسی نومولود بچے کی پہلی مسکراہٹ ،سیاہ آسمان پر چاند کا ابھر جانا ۔یہ سب چیزیں بھی تم مسکراہٹ پر مجبور کر دیتی ہیں ۔گر مسکرانا چاہیں تو۔پھر ہم انسانی قتل ہی کیوں کرتے ہیں ۔اپنے رویوں سے اپنے لہجوں سے ؟ اگر تم جاننا چاہتے ہو کہ سچ کیا ہے؟ تمہاری حقیقت کیا ہے ؟ تو خود میں جھانک کر تو دیکھو۔
کیا ہمارا معمول دوسروں کو آسانیاں دینا بن رہا ہے یا ہم لوگوں کے لیے باعث اذیت بن رہے ہیں؟ایسے ہی واقعات ہر روز ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ان واقعات سے اپنی سوچ بد لیں ، خود کو بدلیں۔معاشرہ بدلنے کی کوشش کرے ۔ان سے نظریں نہ چرائے۔ بہت سے گھر اجڑ ہو چکے ہیں۔بہت آنسو بہائیں جا چکے ہیں۔بہت لوگ تشدد سہہ چکے ہیں ۔بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں ۔ اب اس وحشی قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے اپنا حصہ ڈالنا شروع کریں ۔کسی کو غمگین نہ کریں ۔بس انسانیت سے محبت کریں ۔
خدا ہمارا حامی و ناصر ہو آمین ۔

Scroll to Top