Story by Noor ul Jannat
از: نور الجنت ۔۔۔۔گوجرانوالہ
پیارے انکل مجھے آپ سے مل کر بہت اچھا لگا۔آپ مجھے ایک عمدہ لکھاری بنانے جا رہے ہیں آپ کا بہت بہت شکریہ ! میری امی کہتی ہیں : اللہ پاک اپنے سب سے پیارے بندوں کو قلم کی طاقت دیتا ہے اور قلم کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے۔ میں نے امی سے پوچھا: امی! قلم تو بہت چھوٹی سی, ہلکی سی چیز ہے جو پانچ ,دس روپے میں ہم خرید سکتے ہیں۔ ہاں جی انکل جی! میرا چھوٹا بھائی جو جونئیر نرسری میں پڑھتا ہے وہ دس روپے کی کچی پنسل استعمال کرتا ہے اور میں چونکہ پنجم کا شاگرد ہوں میں پچیس روپے والا سیاہی والا پن استعمال کرتا ہوں اور قلم اٹھانے میں مجھے وزنی بھی نہیں لگتا آرام سے میں قلم پکڑتا ہوں اور پیچھے کاپی سے کلاس ورک دیکھ کر ہوم ورک کر لیتا ہوں۔جب کہ میرے تایا ابو بہت بڑے شکاری ہیں ان کے پاس بڑی بڑی گولیوں والی بندوق ہیں جن سے وہ کبھی ہمارے لیے مرغابی, جنگلی کبوتر, اور کبھی خمرے پکڑ کر لاتے ہیں میں تو ان کی بڑی بڑی بندوقیں دیکھ کر ڈر جاتا ہوں کہ کیسے ایک منٹ میں انہوں نے ہوا میں اڑتے پنچھیوں کو مصالحہ بھون کر کھانا بنا لیا۔ اور اگر انکل جی! کسی دن یہ گولی کسی انسان کو لگ گئی تو……… میں تو سوچ کر ہی لرز جاتا ہوں۔ اور انکل جی آپ کو پتہ ہے میرے دادا ابو پہلوان تھے اور ان کے بڑے بڑے ڈولے تھے وہ صبح صبح اٹھتے اور اکھاڑے میں پہنچ جاتے اتنی سردی میں سارے کپڑے اتار کر چھوٹا سا لنگوٹ( جانگیہ ) پہن کر کشتی کرتے تھے۔ اف مجھے تو انہیں دیکھ کر ہی سردی لگنے لگ جاتی۔ جب دادا ابو اپنے مقابل کے ساتھ دنگل لڑتے ۔دونوں اپنی طاقت دکھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ پیارے انکل میری امی کہتی ہیں :مگر پہلوان سے بھی زیادہ طاقت ور لکھنے والا ہوتا ہے مگر انکل جی انکل سرگم جو ہمارے محلے میں ہی رہتے ہیں اور گھر گھر جا کر اخبار بیچتے ہیں وہ خود بھی تو رسالوں میں لکھتے ہیں وہ تو سوکھے سڑے سے ہیں اور لوگ انہیں انکل ٹنکنا بھی تو کہتے ہیں۔ ہاہاہاہا ہاہاہاہا سوری انکل مجھے منیب کی بات یاد آگئی وہ کہتا ہے: زیادہ لکھ پڑھ کے انکل سرگم کا دماغ خراب ہو گیا ہے زیادہ پڑھنا لکھنا نہیں چاہیے اس سے آدمی بیمار ہو جاتا ہے ہاں اسی لیے تو میرے چاچو کے بیٹے مینب نے پڑھائی چھوڑ دی اور اب وہ گھر گھر دودھ دینے جاتا ہے دودھ دہی کی دکان پہ کام کرتا ہے۔ بچا ہوا دودھ دہی اسے بھی مل جاتا ہے اور ہاں اسے ہر ماہ مہینے کے پانچ ہزار بھی تو ملتے ہیں۔ ہاں جی بڑے پیسے کما رہا ہے گھر والے بھی بڑے خوش ہیں کہ بچہ دودھ دہی میں رہتا ہے۔ انکل جی اس کا رنگ دیکھا ہے آپ نے سرخ سفید ہے اور میں! !! مجھے امی زبردستی سکول ہی بھیجتی رہتی ہیں اتنا بھاری بستہ ہوتا ہے اٹھا اٹھا کر کندھا تھک جاتا ہے مگر امی کو اس بات کا خیال ہی نہیں وہ تو بس کبھی انڈا پراٹھا, کبھی آملیٹ سادہ روٹی تو کبھی بروسٹ کبھی مچھلی کا پیس ڈال کر مجھے سکول کی طرف روانہ کر دیتی ہیں اور پانی والی بوتل بھی تو دینا نہیں بھولتی۔باقی سب تو ٹھیک ہے انکل جی کبھی کبھی پاپا سکول چھوڑنے بھی چلے جاتے ہیں مگر انہوں نے بھی تو دفتر جانا ہوتا ہے ناں ؟لیٹ ہو جاتے ہیں اس لیے میں اور گڈو ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر خود ہی چلے جاتے ہیں امی بچاری دیوار پہ جھک کر ہمیں دور تک دیکھتی رہتی ہیں ابو کہتے ہیں: بس تم تھوڑے اور بڑے ہو جاؤ! پھر میں تمہیں سائیکل لے دونگا تم آگے بیٹھ کر سائیکل چلانا اور گڈو پیچھے بیٹھ جایا کرے گا۔انکل جی ہمارا سکول اچھا ہے ٹیچر رخسانہ مجھے سب سے زیادہ پسند ہے وہ بہت پیاری ہیں وہ کہتی ہیں: اچھا بچہ پڑھتا لکھتا ہے, صاف ستھرا بن کر سکول آتا ہے۔ سکول کا کام دھیان سے کرتا ہے گھر جا کر اپنے ماں باپ کی بات مانتا ہے انکل جی میری ٹیچر یہ بھی کہتی ہے: کہ ہمیں اپنے ارد گرد کے لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے ان کی ضروریات پوری کرنی چاہیے۔اگر کسی بچے کے پاس ایکسٹرا پنسل ریزر شاپنر ہو تو اسے اس بچے کو دے دینا چاہیے جس کے پاس نہ ہو ۔ انکل جی اسی لیے تو میں اپنے بیگ میں ہر وقت دو پن رکھتا ہوں اور سیاہی کی دوات بھی ہمیشہ بھر کر رکھتا ہوں جس کو سیاہی چاہیے ہوتی ہے اسے مل جاتی ہے۔ ٹیچر کہتی ہے چھوٹی چھوٹی نیکیوں کی عادت اپنائے صبح گھر کی چھت پہ پرندوں کو دانہ ڈالنا چاہیے ان کے لیے صاف پانی رکھنا چاہیے۔ گھر اور سکول کی صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔جو بچہ جتنا صاف ستھرا رہتا ہے وہ اتنا ہی پیارا لگتا پے اسی لیے تو انکل جی میں صبح سویرے اٹھتا ہوں ۔ اچھے سے دانت برش کرتا ہوں آپ کو پتہ ہے میرے دانت لش لش کرتے ہیں اور منیب کے تو دانتوں پہ کیڑا بھی لگ گیا ہے بہت درد ہوتا ہے اسے۔ ہاں جی انکل جی منیب کو بہت درد ہوتا ہے اور وہ بہت زور زور سے روتا ہے وہ کہتا ہے: دانت کا درد بہت برا ہوتا ہے۔ انکل جی میں بھی لکھاری بن کر لوگوں کو صاف ستھرا رہنے کا سبق سیکھاؤنگا امی کہتی ہیں کہ لکھاری کے قلم اور اس کے الفاظ میں بہت طاقت ہوتی ہے دنیا میں جب بھی تبدیلی آئی ہے لکھاریوں کی وجہ سے آئی ہے انہوں نے مجھے بتایا علامہ اقبال جو ہمارے قومی شاعر ہیں انہوں نے اپنے اشعار کی مدد سے ہی تو ہماری سوئی ہوئی قوم کو جگایا وہ مجھے پہاڑ اور گلہری کی نظم بھی سناتی ہیں اور گائے اور بکری والی بھی میں تو لب پہ آتی ہے دعا بن کر تمنا میری ہر روز سکول میں پڑھتا ہوں۔امی کہتی ہیں علامہ اقبال سچے عاشق رسول اور وطن سے محبت کرنے والے تھے میری امی کہتی ہیں ان کے پسندیدہ شاعر علامہ اقبال ہی ہیں وہ مجھے اور گڈو کو اقبال کے شاہین بچے بھی کہتی ہیں اور ہمیں کہتی ہیں: ہم نے علامہ اقبال سے پیار کرنا ہے ۔ پیارے انکل آپ کو پتہ ہے امی مجھے اور گڈو کو عجیب و غریب شکلوں والے کارٹون بھی نہیں دیکھنے دیتی۔وہ کہتی ہیں ان سے تو اچھا ہے اقبال کی نظمیں سن لی جائیں اور میں گڈو بھی خوشی خوشی جگنو, ماں کی دعا, مکھی اور مکڑا دیکھتے رہتے ہیں۔ پیارے انکل مجھے مکڑا اچھا نہیں لگتا کس چالاکی سے اس نے مکھی کو کھا لیا۔ مجھے بکری اچھی لگتی ہے وہ کتنی سمجھ دار ہے ناں اس نے گائے کو بہت اچھے سے سمجھایا۔ان شاءاللہ انکل میں بھی اپنی کہانیوں میں اپنی قوم کے لوگوں کو سمجھاؤں گا کہ فضول چیزیں مت دیکھیں۔سبق آموز چیزیں دیکھیں اور ہاں آج میں نے منیب کو بھی تو سمجھانا ہے کہ پڑھائی شروع کر دے کیا ساری زندگی گھر گھر دودھ دینے جاتے رہو گے ؟ انکل جی آپ نے ٹھیک کہا ہے اگر آگے بڑھنا ہے تو الف ب پہ یقین رکھنا ہے ۔ میں اکیلا آگے کیوں بڑھوں؟ میں اپنے ساتھ اپنے گھر, محلے, اور منیب کو بھی آگے لے کر جاؤنگا ان شاءاللہ انکل جی میرے پاس دو بیگ ہیں میں ایک منیب کو دے آتا ہوں اور ایک خود رکھ لونگا ابو جی سے کہہ دونگا آپ مجھے سائیکل مت لے کر دیں بلکہ ان پیسوں سے منیب کو کتابیں اور کاپیاں لے دیں۔تاکہ وہ بھی پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بن سکے کیونکہ مجھے یقین ہے انکل جی امی سچ ہی کہتی ہیں قلم کی طاقت سب سے بڑی ہوتی ہے اور لکھاری کے الفاظ میں بڑی تاثیر اللہ پاک نے رکھی ہے اسی لیے انقلاب جب بھی آیا لکھنے والا ہی لایا میں بھی ایک اچھا مصنف بنوں گا ان شاءاللہ اور ہاں جی مجھے یاد آیا مجھے تایا ابو کو بھی تو سمجھانا ہے کہ اپنے شوق کے لیے ننھے ننھے پیارے پیارے پرندوں کا شکار مت کریں ان کی آزادی اور زندگی مت چھینے مگر انکل جی میں کیا کروں؟ تایا ابو کہتے ہیں شکار حلال ہے مگر مجھے دکھ ہوتا ہے چلو بات کرونگا شاید سمجھ جائیں اور ہاں وہ انکل سرگم جیسے سب …… سمجھ گئے ہیں ناں پتہ کیا انکل جی انکل سرگم بہت مخنت کرتے ہیں صبح صبح اخبار بیچتے ہیں پھر سکول پڑھاتے ہیں اور سکول سے واپسی پہ ٹیویشن پڑھاتے ہیں اور وہ اپنے آرام کا بالکل بھی خیال نہیں رکھتے شام کو لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ امی کہتی ہیں وہ بڑے ذہین ہیں قوم کے معمار ہیں محسن اور رہبر ہیں محلے کے بچوں کو مفت تعلیم دے رہے ہیں ان کا احترام کیا کرو اور جھک کر ادب سے سلام کیا کرو! میں اب کبھی بھی انکل کا نام نہیں بگاڑوں گا پکا وعدہ اور دوسروں کو بھی سمجھاؤنگا سارے کام ہو گئے انکل جی اچھا اب میں گھر چلتا ہوں امی انتظار کر رہی ہونگی سات بجنے والے ہیں اور میرا اور گڈو کا ٹی وی دیکھنے کا وقت ہو گیا ہے اور آج تو نظم بھی وہ لگنی ہے جس کے الفاظ ہیں۔
“زندگی ہو میری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا*