غزل

شیبا حنیف

Ghazal by Sheeba Hanif

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
بھلا بتاؤ بیگم , یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
میں رات بھر جاگوں,دن بھر ٹک ٹک کروں
میں ہوں اور میرا موبائل اور آرزو کیا ہے
میں یہاں ڈھیر لگا دوں قدموں تلے بچھا دوں
جو میری بیگم کی خوشی ہے ٹیلی نار تو کیا ہے
اجی سنتے ہو بریانی بنا رکھونگی دہی لیتے آنا
بھلا بتاؤ تو بغیر کریڈٹ کے سم کی آبرو کیا ہے
اچھا پیکج بھی کرواؤنگا اور سم بھی ساتھ لاونگا
چار بھی تھوڑی ہیں یہاں پھر دو کیا ہے
ارے پیارے میاں چار پہ نہ آنا ایک پہ ہی رہنا
بیوی ایک ہی اچھی جو تم بھی کہہ دو تو کیا ہے
سن لو بیگم دل میں بسی میرے ایک ہی دعا ہے
خدایا بس چار بیویاں ہو اور آرزو کیا ہے
کبھی دوپٹہ رنگواؤ, تو کبھی سرخی لے کر آؤ
خدمت کاتمنائی ہو بس اور جستجو کیا ہے
پیارے میاں پیارے ہی رہنا آج جو کہا ہے پھر نہ کہنا
وگرنہ گلہ کاٹ کے سالن بنا دے بیگم تو کیا ہے

Ghazal by Sheeba Hanif

Read more from Sheeba Hanif on Apna Magazine

Serach Apna Magazine on Google to Read more poetry and novels

Scroll to Top